طاقتوروں کی لڑائی، ترامیم پیکیج، بغاوت کا مقدمہ

101

جمہوریت کے کرشمے آٹھ سیٹوں والے لیڈر نے 219 سیٹوں والی اتحادی حکومتی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو تین چار روز میں تگنی کا ناچ نچا دیا۔ جو کچھ ان کے ساتھ 8 فروری کے الیکشن میں کیا گیا تھا وہ انہوں نے سود سمیت چکا دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے صدر زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو اور محسن نقوی کے پے در پے ملاقاتوں کے باوجود حکومتی ہاتھ جھٹک کر پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا لیا۔ اسد قیصر کے گھر کھانا کھا کر ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ انہوں نے آئینی ترامیم پیکج کا حکومتی مسودہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ اعلان سے حکومتی ایوانوں پر بجلی گر گئی۔ ’’اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘‘ سیانوں نے سچ کہا سیاست اصولوں کا نہیں مفادات کا نام ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن نہیں بھیانک انتقام ہے۔ 54 آئینی ترامیم کا پیکج سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہ کیا جاسکا۔ کیوں؟ وزیروں مشیروں اور بزعم خود ماہرین آئین و قانون کی حماقتوں کی لمبی داستان ہے۔ زرداری کی مفاہمت، نواز شریف کی متانت، محسن نقوی کی حکمت، بلاول کی ذہانت کسی کام نہ آئی۔ مولانا سب کو چکر دینے میں کامیاب رہے۔ سب گول مال ہے۔ آئینی ترامیم پیکج کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ بد قسمتی سے خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد جمہوری رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران اپنے سہولت کاروں اور دنیا بھر میں پھیلے سوشل میڈیا نیٹ ورک کی مدد سے وہ اودھم مچایا کہ ملک عدم استحکام سے دوچار ہوگیا۔ بیرونی سرمایہ کاری رک گئی۔ ان کی گرفتاری پر 9 مئی کے سانحہ نے طاقتور اداروں میں خوفناک لڑائی کو ہَوا دی۔ جوڈیشل ایکٹو ازم سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو دھچکا لگا۔ پے در پے سیاسی فیصلوں نے حکومت کی راہ میں بریکر کھڑے کردیے۔ اس پر آئین کے آرٹیکل 175 سے 213 تک 54 ترامیم کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کی توسیع، ججوں کی تقرری تعیناتی اور ٹرانسفر کے اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کرنے اور آئینی مقدمات نمٹانے کے لیے ایک متبادل سپریم کورٹ کے قیام کے علاوہ ججوں کی کارکردگی جانچنے کا نظام شامل تھا۔ حماقت سرزد ہوئی کہ پیکج کی تیاری کے ابتدائی مراحل ہی میں خبریں لیک کردی گئیں۔ جن کی وجہ سے موجودہ چیف جسٹس کی ذات موضوع بحث بن گئی۔ پنڈ بسا نہیں تھا اچکے پہلے تیار ہوگئے۔ 8 ججوں کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے اتحادی حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی۔ مولانا کی 8 سیٹیں اور 5 سینیٹر اہمیت اختیار کرگئے۔ منت سماجت کام نہ آئی۔ مولانا جل دے گئے۔ پیکج بنانے والے لائق فائق وکیل لیکن خان کے وکلا کی طرح شاطر ثابت نہ ہوئے۔ بنیادی اصول سمجھنے سے قاصر کہ شطرنج میں چالیں اور تاش میں پتے شو نہیں کیے جاتے۔ ایرینا میں موجود سارے سہولت کار متحد ہوگئے۔ چنانچہ تادم تحریر آئینی ترامیم کا بل تو پیش نہ ہوسکا۔ 8 ججوں کا حکم نامہ آگیا کہ 41 آزاد ارکان کو بھی پی ٹی آئی کا ڈیکلئر کیا جائے ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ چھ سات آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر دو تہائی اکثریت پوری کرنے کی توقع تھی۔ حکومتی اتحاد کے پاس 213 سیٹیں تھیں۔ 224 کی ضرورت تھی۔ حکم نامہ سے بریک لگ گئے۔ وقتی پریشانی ہوئی الیکشن کمیشن تین اجلاسوں میں بھی فیصلہ نہ کرسکا مگر طاقتوروں نے نئی گیم ڈال دی، کہنے سننے کا وقت ختم مولانا کی گیم اوور (شنید ہے کہ مولانا بلاول کے ساتھ مل کر آئینی ترامیم کا اپنا مسودہ تیار کر رہے ہیں۔ توسیع کے مخالف لیکن آئینی سپریم کورٹ کے قیام سے متفق ہیں) مولانا کے ملتان جاتے ہی پلان بی کا آغاز، مفروضوں پر جشن منانے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ پارلیمنٹ سپریم اپنے پیروں پر جم کر کھڑی ہوگئی۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے حالیہ الیکشن ایکٹ کے تحت آزاد ارکان کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دینے اور مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمیشن کو خط لکھا اور قومی اسمبلی میں موجود پارٹیوں کی تعداد ویب سائٹ پر ڈال دی۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کا وجود ختم، 80 ارکان سنی اتحاد کونسل کو پیارے ہوگئے۔ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق 20 مخصوص نشستیں مسلم لیگ ن اور پی پی کو دے دے تو حکومتی ارکان کی تعداد دو تہائی اکثریت سے بڑھ جائے گی۔ اور حکومت وزیر اعظم کے دورہ امریکا سے واپسی پر 28 ستمبر یا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں آئینی ترمیمی بل منظور کرا سکے گی۔ طاقتوروں نے اپنا کام دکھا دیا۔ خان کی کہانی ختم، سابق صدر عارف علوی نے بھی مایوسی کا اظہار کردیا۔ لیکن لڑائی ختم نہیں ہوئی جن کے پاس تشریح کے اختیارات ہیں بلکہ وہ اکثر و بیشتر آئین ری رائٹ کرنے کے بھی عادی ہیں۔ ان کا بھی جواب آئے گا۔ سیانے کہتے ہیں گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ معاملات سدھرنے کی امید نہیں، پنجاب اور سندھ اسمبلیوں کے اسپیکرز نے بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حمایت کی ہے۔ قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن 12 ستمبر کے فیصلے پر عملدرآمد پر آمادہ نہ ہوئے تو کیا ہوگا۔ دونوں آئینی، خود مختار اور طاقتور ادارے ہیں۔ ان پر توہین عدالت کی تلوار نہیں گر سکتی، قوت نافذہ تبدیل ہو کر ان کے پاس آگئی ہے۔ اسی دوران حکومت نے شاید پہلی بار چابکدستی کا ثبوت دیتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے ایکٹ میں آر ڈی ننس کے ذریعے ترمیم کردی صدر نے اس پر دستخط کردیے جس کے بعد وہ نافذ العمل بھی ہوگئی۔ اس کے تحت کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو شامل کرلیا گیا ہے۔ 3 رکنی کمیٹی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل ہوگی اور مقدمات کی سماعت کے لیے روسٹرز اور بینچ بنائے گی۔ آئینی پیکج کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ اور نئی آئینی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ نئی سپریم کورٹ آئینی پٹیشن کی سماعت کرے گی۔ سوموٹو ایکشن کی وجوہات بتانی ہوں گی۔ جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس 60,508 زیر التوا مقدمات نمٹائیں گے۔ اگر مزید رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو وہ کچھ ہوگا جس کے بارے میں سوچ کر ہی اپنے خان کانپ کانپ جاتے ہیں۔ ایمرجنسی پلس یا مارشل لاء وہ بھی ملاوٹ سے پاک خالص گھی کی طرح، سہولت کار کہاں ہوں گے۔ بہتر کارکردگی شرط ٹھہری تو کی استعفے منظر عام پر آجائیں گے۔ خان مستقبل کی امکانی صورتحال سے خاصے پریشان ہیں انہیں خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلا سوچے سمجھے بولنے پر مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی اور عوام کو اشتعال دلانے کے الزام میں ان کے خلاف 13 ستمبر کو بغاوت کا مقدمہ نمبر 1138/24 درج کرلیا گیا۔ ایف آئی اے نے ابتدائی تفتیش بھی کرلی، مقدمات تادیر چلیں گے پھر لمبی جدائی، جیل سے باہر پی ٹی آئی کے گنڈا پور برانڈ لیڈر پوری طرح متحرک ہیں۔ 21 ستمبر کو خان کے حکم پر لاہور میں جلسہ کے لیے انتظامیہ نے مویشی منڈی میں جلسہ کی اجازت دی لیکن 45 شرائط عائد کردیں۔ 20 رہنما گرفتار کرلیے گئے۔ گنڈا پور کی ایک جج نے ضمانت قبل از گرفتاری خارج کردی اور وارنٹ گرفتاری جاری کردیے جبکہ پشاور کے جج نے ضمانت منظور کرلی۔ پی ٹی آئی کو جلسہ کے لیے مویشی منڈیاں ہی کیوں ملتی ہیں۔ ’’کبوتر با کبوتر باز با باز‘‘ مشتری ہشیار باش، چینی وزیر اعظم 14 اکتوبر کو پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس موقع پر شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی گھنائونی سازش تیار کر رکھی ہے۔ کامیاب ہو نہ ہو ان کا مقصد چینی وزیر اعظم کے دورے کو متاثر کرنا ہے۔ حاصل کلام خان آلۂ کار نشانہ پاکستان، سازشوں کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ کوئی راکٹ سائنس نہیں، سی پیک کو لپیٹنا ہے عدم استحکام معاشی تباہی ہدف، پیچھے کون ہے ڈھکی چھپی بات نہیں، حکومت خیبرپختونخوا میں سلگنے والی آگ پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ افغانستان نے فی الحال گنڈا پور سے براہ راست مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ لیکن گنڈا پور کا کہنا ہے کہ ’’ہم نہ باز آئیں گے محبت سے‘‘ سازشی عناصر کی پوری توجہ اسی صوبہ پر مرکوز ہے۔

تبصرے بند ہیں.