حکومت اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے درمیان ہر شخص اور ہر ادارے کے اعصاب پر سوار معرکہ اپنے انجام کو پہنچا حکومت کے مطابق یہ جلسہ نہیں جلسی تھی۔ ، میدان میں پڑی ہزاروں کرسیاں منہ چڑاتی رہیں اور منتظر رہیں ، جنہوں نے نہ آنا تھا وہ نہ آئے ، کوئی بڑا لیڈر وہاں نہ پہنچا لوگ بیزار ہوتے رہے اور پھر مایوس ہوکر گھروں کو لوٹ گئے جو آئے انہوں نے فیصلہ کرلیا اور حکومت کو مطلع بھی کردیا کہ وہ آئندہ اس قسم کے وقت ضائع کرنے والوں جلسوں میں نہیں آئیں گے بلکہ آئندہ چندروز میں جناب نوازشریف جناب شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز کے ویژن سے متاثر ہوکر مسلم لیگ ن، مسلم لیگ شین یا مسلم لیگ میم میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ ان شرکاء جلسی نے وزیر اطلاعات حکومت پنجاب کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شرکاء کی تعداد میں پہلے سے پانچ سو افراد ڈال کر ان کا بھرم مکمل تباہ ہونے سے بچایا اگر وہ ان پانچ سو افراد کا بروقت عطیہ نہ دیتیں تو آج پی ٹی آئی دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔
تحریک انصاف کے ترجمان کے مطابق ظلم جبر تشدد پکڑ دھکڑ کی فضا میں وہ ایک طویل عرصہ بعد انتہائی کامیاب جلسہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی کامیاب رہے ہیں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تمام روکاوٹیں توڑ کر مویشی منڈی تک پہنچ گیا جس میں بچے بوڑھے نوجوان خواتین وحضرات بڑی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے اپنے قائدین پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا جلسے سے بیرسٹر گوہر علی خان، ملک احمد بھچر ، لطیف کھوسہ، وقاص اکرم ، عالیہ حمزہ ، عون عباس، سلمان اکرم، راجہ نعیم حیدر پنجوتھا، فیصل جاوید، عمرڈار ، شوکت بسرا اور ندیم بارا نے خطاب کیا۔ جلسہ کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ جلسے میں کچھ ایسی شخصیات نے بھی شرکت کی جو تین سے چار ماہ بعد اس دنیا میں آئیں گی، حکومت پنجاب نے انہیں اپنی گنتی میں شامل نہ کرکے میتھس میں کمزور ہونے بلکہ فیل ہونے کا ثبوت دیا ہے اس کے علاوہ چند ہزار افراد کی جلسی کو کنٹرول کرنے کیلئے تیس ہزار پولیس اہلکاروں اور افسروں کو بھی شمار نہیں کیا گیا جنہوں نے جلسی کو اپنے حصار میں لے رکھاتھا اور بتیاں گل ہونے تک انہیں اپنے حصار سے نہ نکلنے دیا ان تمام افراد کو شمار کرلیا جائے تو حاضرین جلسہ ایک بڑی تعداد میں موجود تھے۔ کوئی کرسی ان سے خالی نہ تھی لاتعداد افراد کو بیٹھنے کیلئے کرسی دستیاب نہ ہوئی عین ممکن ہے ان کی ڈیوٹی میں یہی ہوا کہ ایک آدمی نے ایک سیاسی کارکن کے سرپر سوار رہنا ہے، جلسے میں قیمے والے نان اور کولڈ ڈرنکس کی کمی حددرجہ محسوس کی گئی ، چکن اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ اپنی بقا کی جنگ لڑتی کوئی سیاسی جماعت ایسے موقعوں پر بریانی افورڈ نہیں کرسکتی، حکومت پر الزام لگایا جارہا ہے کہ صرف اس جلسی کے پیش نظر چکن ایک روز کیلئے مہنگا کردیا گیا زندہ مرغیوں کو پولٹری فارم سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی انہیں کنٹرول کرنے کیلئے ان پر بھی دفعہ 144لگادی گئی یہ ویسی مرغیاں ہوتیں تو حکومت کا شکریہ ادا کرتیں کہ انہیں ایک روز مزید مرغوں کے ساتھ رہنے کا موقعہ دیا گیا ہے لیکن برائلر گروپ کو مرغے کا ساتھ میسر نہیں ہوتا لہٰذا حکومت اس مرغیانہ شکریے سے محروم رہی۔
جلسی کیلئے اکتالیس شرائط رکھی گئی تھیں جو نہایت دل چسپ تھیں، وقت تین بجے سے چھ بجے تک کا دیا گیا، شاید تصور کرلیا گیا کہ فلم کا شو ہے تین گھنٹوں میں ختم ہوجائے گا، شدید گرم موسم کے باعث استدعا کی گئی تھی کہ شوٹائم چھ سے نوبجے کردیا جائے لیکن سرکاری ارسطو نے مشورہ دیا یہ بات ہم نے نہیں ماننی، چھ سے نو کا ٹائم دیا تو شو کامیاب ہوجائے گا، دور دراز کا سفر طے کرکے آنے والے پہنچ جائیں گے رنگ محفل دوبالا ہو جائے گا لہٰذا چھ بجے میں ایک منٹ پر پولیس نے سٹیج پر قبضہ کرلیا اور کسی کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا، جلسے کے بعد بتایا گیا کہ پولیس نے درجن بھر سے زائد اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا ہے جو جلسے میں شریک تھے، ان اشتہاریوں پر تین حرف بھیجنے چاہیں جو شاید ابھی میچوراشتہاری نہیں تھے بلکہ کاکے چوچے تھے جو درجنوں ناکوں سے بچ بچا کر جلسی میں پہنچ گئے اور یہاں گرفتار ہوگئے ،جلسی کیلئے مویشی منڈی کی جگہ اس لئے دی گئی تھی کہ شرکاء کو مویشی منڈی کہا جائے اور ان کی تضحیک کی جائے، سینہ گزٹ کے مطابق ہدایات بھی کچھ ایسی تھیں، یوٹیوبرز میں سے کچھ ان ہدایات پر عمل کرکے رزق حلال کرتے نظر آئے یہ بہت بری بات ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اسے مویشی کہنا یا مویشی ثابت کرنا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق بلکہ اس کی بہترین تخلیق کا مذاق اڑاناقابل مذمت ہے، کوئی شخص بذات خود مویشیوں والی حرکتیں کرے اور خود کو جانوروں کے درجے پر لے آئے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے ہمیں کسی کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ ہرانسان کو حق ہے وہ اپنے لئے انسانوں والی زندگی کا انتخاب کرے یا مویشیوں کا ساطرزعمل اپنائے، اس بات کو جمہوریت کے حسن میں شامل کرلینا چاہئے۔
حکومت کی طرف سے جلسی کو اوقات میں رکھنے کیلئے روز وشب کام کرنے والوں کو دواضافی بونس کے ساتھ ایک محکمانہ ترقی دینی چاہئے اس سے ان کے حوصلے بلند ہوں گے وہ آئندہ مزید جانفشانی سے کام کرتے ہوئے مزید جلسوں کو اوقات میں لائیں گے، ان تمام کامیابیوں پر پنجاب سرکار کو اطمینان ہونا چاہئے لیکن خبریں بے اطمینانی کی آرہی ہیں، وہ تنہائی میں خود سے سوال کرتی نظر آتی ہے کہ لاکھوں روپے، ہزاروں افراد کی محنت سے یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے اگر اس حوالے سے کوئی انتظامات نہ کیے جاتے سب کچھ کھلا چھوڑ دیا ہوتا تو پھر کیا ہوتا، غیرجانبدار حلقے بھی اس سوال سے اپنا دامن نہیں چھڑاسکے ان کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ سانحہ نومئی کو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا تحریک انصاف کے کارکنوں کو شکوہ ہے کہ اس حوالے سے آج بھی گرفتاریاں کی جارہی ہیں، دوروز قبل اٹھارہ سوافراد کو گرفتار کیا گیا۔
ستر برس سے ایک کہانی پر نہایت دل جمی سے کام ہورہا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی پولیس کے پاس جب کسی کو گرفتار کرنے کا کوئی معقول جواز نہ ہوتا تھا تو اسے ایک خاص دفعہ کے تحت گرفتار کرکے بتایا جاتا کہ الزام سرعام بوس وکنار کا ہے، شریف آدمی فوراً نذرانہ پیش کردیتا کہ اس لغو الزام سے جان چھڑائی جاسکے، نئے دور میں سانحہ نومئی بھی کچھ ایسی ہی شکل اختیار کرچکا ہے، سرعام بوس وکنار کے جرم میں گرفتاریاں ختم کردی جائیں چاہے کوئی نیا الزام گھڑ لینا چاہئے، ملک میں اعلیٰ دماغوں کی کمی نہیں ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.