حکمران چورباقی سب فرشتے

90

یہاںاپنے دامن پرلگے داغ کسی کونظرآرہے ہیں اورنہ ہی کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیارہے۔دنیاترقی کرگئی یانہیں لیکن ہم اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ اپنے سارے عیب،جرائم اورگناہ ہم نے دوسروں پرتنقیداورتضحیک کرنے اورانہیں گناہ گارومجرم کہنے کے پردے میں چھپادیئے ہیں۔آپ دورجانے کے بجائے محلے کی دکان،قریبی ریڑھی بان یاسبزی فروش اوردودھ فروش کے پاس چلے جائیں۔ محلے کا دکاندار، ریڑھی بان اور سبزی ودودھ فروش دو نمبر اشیائ، خراب فروٹ سبزی، کیمیکل، پاؤڈر اور پانی ملا دودھ آپ کو پکڑاتے ہوئے حکمرانوں، لیڈروں، سیاستدانوں اوردوسرے لوگوں کوبرابھلاکہتے اورگالیاں دیتے دکھائی دیں گے۔ اصل سے بھی زائد قیمت لیکرآپ کو دو نمبر اشیائ، خراب سبزی وفروٹ اوردودھ کے نام پرزہردینے والے پکے وٹکے مسلمان کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم حرام خور ہیں، فراڈی ہیں، بے ایمان ہیں اورجھوٹے ونوسربازہیں بلکہ اس ملک میں ہرچور،بے ایمان اورڈاکودوسروں کی طرف انگلی کرکے کہتاہے کہ میرے سواسارے لوگ خراب ہیں۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں یہ انکشاف کیا گیاکہ یہاں دودھ کے نام پر زہربیچاجارہاہے۔سومیں کوئی پندرہ بیس فیصدخالص دودھ کہیں بیچاجارہاہوگا،اسی پچاسی فیصددودھ کے نام پرکیمیکل اورپاؤڈرگول کرکے لوگوں کوپلایااورتھمایاجارہاہے۔یہ صرف ایک دودھ کی بات نہیں اس ملک میں تواب ہرچیزدونمبربکنے لگی ہے۔ سگریٹ، پتی، مصالحہ جات، صابن، سرف، شیمپو، چاکلیٹ اورکپڑوں وجوتوں سمیت انسانی زندگیاں بچانے والی ادویات تک مارکیٹ میں دونمبر اور غیرمعیاری سرعام فروخت ہو رہی ہیں۔ جس طرح اچھے برے اورایمانداروبے ایمان انسان کاپتہ نہیں چل رہااسی طرح اب مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے جعلی اوراصلی ہونے میں بھی فرق معلوم نہیں ہورہا۔اصلی اورمعیاری چیزبنانے کاہمیں نہیں پتہ لیکن دونمبراورجعلی اشیاء بنانے کے توہم ماہر اور ماسٹرہیں۔ایسی کونسی چیزہے جس کی ہم نے کاپی مارکیٹ میں نہ لائی ہو۔ہماری مارکیٹیں،
دکان،بازاراورگھربارجعلی اشیائ، جھوٹ، فریب اور دھوکے سے بھرے پڑے ہیں۔ باہر کی دنیا میں تاجر، سرمایہ دار، صنعتکار اور بیوپاری کاروبارکے ذریعے انسانیت کی خدمت کا عزم، ارادہ اورنیت کرکے گھروں سے نکلتے ہیں اور ہم۔؟ ہم رات کو خواب میں بھی اپنے مجبور، لاچار اور بے بس مسلمان بھائیوں کولوٹنے،کاٹنے اور ڈسنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، مقصد اور مشن ہی یہ ہوتاہے کہ گاہگ کوکیسے لوٹا اور ڈسا جائے۔؟ ایک غریب، مجبور اور لاچارانسان کو دس روپے کی شے پانچ سو اور ہزار میں پکڑانا یہ توہمارے ہاں عام بلکہ سرعام ہے۔ آنے والے گاہک اور سائل کوبڑے سے بڑاٹیکہ لگانے کو ہم ترقی اور کامیاب کاروبار سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑا اور کامیاب تاجر، سرمایہ دار، کسان، زمیندار اور صنعتکار وہ ہے جس کے ہاتھ سے مارکیٹ، بازار اور دکان آنے والے لوگوں کوسب سے زیادہ نقصان اورتکلیف پہنچے۔ ہمارا کام اور مقصد صرف پیسے بٹورناہے آگے ہمارے ہاتھوں یاہماری حرص اور لالچ کی وجہ سے کوئی بھوک سے مرے یاغیرمعیاری اشیاء وادویات کھانے سے تڑپے۔ اس سے ہماراکوئی سروکار نہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے آبائی گاؤں جوزضلع بٹگرام میں ایک رشتہ دارخاتون زبیرگلالاکی اہلیہ کوباؤلے کتے نے کاٹاجسے فوری طورپرمہنگے انجکشن لگائے گئے اور پھر انجکشن کاکورس بھی مکمل کرایا گیا لیکن اس کے باوجود ان انجکشن کاکوئی اثرنہیں ہوا۔ ماناکہ موت اٹل حقیقت ہے ٹائم پورا ہو تویہ پھرانجکشن اور ادویات سے بھی نہیں رکتالیکن مریض کولگنے والے انجکشن اوردوائیاں ہی اگر دونمبر اور غیرمعیاری ہوں تو پھر موت سے کیاگلہ۔؟ مریض یامریضوں کولگنے والے انجکشن اوراسے منوں کے حساب سے دی جانے والی دوائیاں اصلی ہیں یاجعلی اس سوال کاجواب کسی کے پاس نہیں،خودڈاکٹروں کوبھی پتہ نہیں ہوتاکہ کونسی دوائی اصلی ہے اورکونسی جعلی۔اس ملک اورمعاشرے میںدونمبر،جعلی اور غیرمعیاری ادویات اوردیگراشیاء نے انسانیت کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔یہاںغریب لوگ بکری، گائے، بھینس اوردیگرمال مویشی بیچ کراپناعلاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوائیوں پردوائیاں کھانے اورانجکشن لگانے کے باوجودانہیں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔پہلے پیراسٹامول اورپیناڈول کی ایک گولی کااثربھی کئی دن تک رہتالیکن اب لوگ گولیوں پرگولیاں کھانے اوردوائیاں پھونکنے کے باوجودمعمولی سافرق اوراثرتک محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست راشدخان شدیدبیمارہوئے،ڈاکٹرکے پاس گئے تواس نے بیس کلووالاپوراتھیلادوائیوں سے بھر کر تھما دیا۔ دو تین دن بعد ہم نے پوچھا دوائیوں سے کوئی فرق پڑا۔کہنے لگے حرام بااللہ ذرہ بھی کوئی فرق پڑاہوا۔یہ کسی ایک راشدخان یاکسی ایک گاؤں،دیہات،شہراورصوبے کی بات اورمسئلہ نہیں۔اس وقت کراچی سے سیاچن،چترال سے مکران اورلاہورسے کشمیرتک پوراملک جعل سازوں،فراڈیوں اورنوسربازوں کے نرغے میں ہے۔ادویات کیا۔؟ان ظالموں سے تواس ملک میںعام کھانے پینے کی اشیاء اوردودھ تک محفوظ نہیں۔ہرگلی،چوک اورچوراہے پرصحت کے نام پرموت بانٹی جارہی ہے۔کاروبارسے وابستہ تقریباًپچانوے فیصدلوگ رزق کے نام پرزہربیچ رہے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ان ظالموں اورچھپے قاتلوں پرہاتھ ڈالنے والاکوئی نہیں،کوالٹی چیک کے نام پراس ملک میں کئی محکمے اوردرجنوں افسران ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ قوم کے ان دشمنوں پرہاتھ ڈالیں۔ان مفادپرستوں کی حرص اورلالچ کی وجہ سے پورا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ کام سارے یہ خود چوروں، ڈاکوئوں، فراڈیوں اور نوسربازوں والے کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں چوراورڈاکوکل بھی حکمران تھے اورآج بھی حکمران ہیں۔ان کی شکلیں دیکھ کرایسالگتاہے کہ ان سے بڑے فرشتے کوئی ہوں ہی نہ۔ وقت آگیاہے کہ ایسے حرام خوروں اوربے ایمانوں پرہاتھ ڈال کرانسانیت کوتباہ ہونے سے بچایاجائے نہیں تواس ملک میں ادویات اورکھانے پینے والی اشیاء کے نام پر زہربیچنے والے یہ درندے توہوں گے لیکن انسان پھرنہیں ملیں گے۔اس لئے انسانیت کوبچانے کے لئے ان درندوں کاقلع قمع کرنافرض ہی نہیں بلکہ اس قوم کا قرض بھی ہے۔

تبصرے بند ہیں.