ترمیم تو ہوگی…!

54

بلاشبہ پاس کرانے کے ببانگ دہل اعلان کے بعد ترامیم کا پیش تک نہ کیا جانا حکومت کے لیے باقاعدہ سبکی ہی تو تھی ۔یہ سوال اپنی جگہ کہ اگر حکومت کی تیاری نہیں تھی ۔مطلوبہ تعداد میں ووٹوں کی یقین دہانی یا بندوبست نہیں تھا تو پھر اتنی وضاحت سے بڑھک بازی اور بار بار نمبر پورے ہونے کا اعلان کیوں کیا گیا۔اگر یقین دہانیاں مکمل تھیں تو گزشتہ اتوار کا دن حکومت پر اتنا بھاری کیوں ہوگیا کہ پوری حکومتی مشینری مولانا فضل الرحمان کو ووٹ ڈالنے کے لیے ایوان تک لانے میں ناکام رہی ؟بظاہر تو مولانا فضل الرحمان نوازشریف سے اپنے غصے کا بدلہ لے رہے ہیں جو ان کو الیکشن کے دوران ن لیگ کی بے اعتناعی اور مولانا کی پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو حقارت سے جھٹکنے کے باعث ہے۔یہ بات سب پر واضح تھی اور اب بھی ہے کہ مولانا کو حکومت کی مخالفت اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملاکرنہ کچھ حاصل ہوناہے اور نہ ہی مولانا کی یہ خواہش کہ وہ پی ٹی آئی کی طرز کی اپوزیشن کریں جس میں کسی سے بات چیت اور رواداری کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔
سوال یہ بھی ہے کہ ایک بار ترمیم پیش کرنے میں ناکامی پرحکومت اس اقدام سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو اس کا جواب ہے کہ نہیں ۔حکومت آئینی ترمیم سے پیچھے نہیں ہٹی اور نہ ہی ہٹے گی ۔بس اس کام کو کرنے کے لیے اب حکومت نے پلان بی پر کام شروع کردیا ہے ۔وہ کام جو پہلے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت یا کسی اتفاق رائے سے ہونا تھا اب وہ حکومت اپنی طاقت پر کرلے گی ۔ایک بات اور بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے سیاست میں آنے کے بعد اور طرز سیاست کو ذاتی انتقام کا درجہ دینے کے بعد ہمارے ملک اور معاشرے میں اتفاق رائے والی کتاب ویسے بھی مکمل بند ہی ہوچکی ہے۔اب سیاست ذاتی لڑائیوں کا نام رہ گئی ہے ۔دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرنے کا نام رہ گئی ہے ۔اقتدار حاصل کرتے ہی مخالف فریق کو ختم کرنے کا نام رہ گئی ہے ۔
اتوار والے دن ترمیم پیش نہ ہونے کی ایک وجہ جہاں مولانا کاانکار تھا وہیں دوسری بڑی وجہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کی طرف سے اچانک حرکت میں آنے اور سیاست میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ’’وضاحت ‘‘ نما فیصلہ تھا ۔یہ وضاحتی فیصلہ ایسا حکم تھا جس میں نہ کوئی منطق،نہ کوئی قانونی دلیل و نظیر اور نہ ہی کوئی آئینی اختراع تھی بس اتنا براہ راست حکم تھا کہ جو کچھ بھی سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کے بارے فرمودات اور سوچ کے مخالف کوئی سوچ رہا ہے وہ سب غلط ہے ۔حیران کن امر یہ ہے ان معزز آٹھ ججز کے پاس اپنا دیا ہواتفصیلی فیصلہ لکھنے کا وقت نہیں ہے ۔مائی لارڈز دوماہ کی چھٹیاں گزارنے کے لیے یورپ اور امریکی سفر بھی کرچکے ہیں لیکن یہ ایک تفصیلی فیصلہ لکھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا ۔
قدرت کا ایک اصول ہے کہ جب آپ کسی کام میں تاخیر کرتے ہیں تو سسٹم متبادل تخلیق کاری شروع کردیتا ہے۔اس کو کوئی اچھا سمجھے یا برا لیکن ہوتا ایسا ہی ہے ۔سوچیں اگر سپریم کورٹ کے معزز مائی لارڈزاس ملک کا سوچتے اور مختصر کے اگلے ہی دن تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیتے اور جن فریقوں نے اس فیصلے پر نظر ثانی اپیلیں دائر کررکھی ہیں ان اپیلوں کو بھی فوری سننے کے لیے ذاتی چھٹیاں کچھ دن اس قوم و ملک کے مفاد میں مؤخرکردیتے اور مخصوص نشستوں کے کیس میں یہاں مکمل انصاف کے ڈونگرے برسائے تھے وہیں اس انصاف کے ساتھ پراسس کو بھی مکمل کردیتے تو کیا آج یہی صورتحال ہوتی ؟کیا اس وقت جو سپریم کورٹ پر سیاسی مداخلت کے الزامات لگ رہے ہیں وہ کسی کو لگانے کی ہمت ہوتی؟۔
حکومت نے اپنا آپ سمجھانے اور دوسروں کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد آئینی ترمیم کرنے کے لیے پلان بی کا آغازکردیا ہے کیونکہ ترمیم تو ایک بارپاس ہونی ہی ہے ۔اس پاس شدہ ترمیم کے ساتھ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے یہ معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا لیکن ترمیم تو پاس ہوگی ۔مخصوص نشستوں کے فیصلے کی وجہ سے قومی اسمبلی نامکمل ہے ۔اس فیصلے کی وجہ سے حکومت کو ملنے والی دوتہائی اکثریت بھی معطل ہے۔پہلے مرحلے میں یہ معطل شدہ دو تہائی اکثریت بحال کروانے کا عمل شروع ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کمیشن کو خط میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے بے اثر ہونے پر اصرار کا مقصد الیکشن کمیشن کو طاقت کا ٹیکا لگانا ہے تاکہ وہ سپریم کورٹ کی وضاحت کو لایعنی خیال کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ کے تحت معطل شدہ مخصوص نشستیں بحال کرکے حکمران اتحاد کی دوتہائی اکثریت بھی بحال کردے۔اسپیکر نے اپنے ادار ے تک سپریم کورٹ کے فیصلے کااثر زائل کردیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پی ٹی آئی میں تبدیل کرنے کا عمل ریورس کردیا ہے۔اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی نامی جماعت موجودنہیں ہے اس کی جگہ سنی اتحاد کونسل واپس آگئی ہے۔
اب اگلی چال الیکشن کمیشن نے چلنی ہے ۔الیکشن کمیشن اسپیکر کے خط اور اس میں درج الیکشن ایکٹ میں ترمیم کوجوازبناکر معطل کی گئی مخصوص نشستیں بحال کردے گا۔یہ نشستیں بحال ہوتے ہی حکومت قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کرکے بغیر کسی کے مشورے ،اتفاق رائے اور اجازت سے ترمیم منظورکروالے گی ۔قومی اسمبلی کی حد تک مولانا کی اہمیت ختم ہوجائے گی ۔جمعہ کی پریس کانفرنس میں مولانا کی پریشانی واضح تھی ۔قومی اسمبلی میں ضرورت ختم ہونے پرمولانا اپنی ناراضگی بھی ختم کرنے کی طرف جائیں گے اورترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
پلان بی کے تحت دوسراکام حکومت نے پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ میں ترمیم کرکے کیا ہے۔یہ ترمیم آرڈیننس کے ذریعے لائی گئی ہے کیونکہ تین رکنی کمیٹی میں مائی لارڈ جسٹس منصور اور منیب اختر نے طے کرلیا تھا کہ ملک و قوم ،آئین ،قانون گیا تیل لینے بس قاضی فائز عیسٰی کی مخالفت فرض کے طور پر اپنے اوپر لاگوہونی چاہیے۔ اس وجہ سے مخصوص نشستوں کی نظرثانی اپیل نہیں سنی گئی۔اور اب تریسٹھ اے جیسا فیصلہ جو دوسال سے زیرالتوا ہے اور اس کیس میں بھی بندیال صاحب کی عدالت نے آئین میں پیوندکاری کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو فائدہ پہنچایا تھا۔اس کی نظرثانی اپیلیں زیرالتوا ہیں ۔وہ کیس بھی نہیں لگانے دیا جارہا ۔حکومت نے ججز کمیٹی سے دومعزز ججز کے مبینہ ارادوں سے تنگ آکراس میں ترمیم کی ہے نئی کمیٹی بن چکی ہے۔اب آرٹیکل تریسٹھ کا کیس لگے گا اورامید ہے کہ بندیال صاحب کا فیصلہ کالعدم ہوگا ۔اگر یہ فیصلہ کالعدم ہوگا تو سینیٹ میں بھی ترمیم کے حق میں جو پانچ چھ ووٹ کم ہیں وہ پورے ہوجائیں گے ۔اس صورت میں بھی مولانا کی ضرورت ختم ہوجائے گی ۔پلان بی مولانا کا کرداراور اہمیت ختم کردے گا ۔اس لیے مولانا واپس آئیں گے۔

تبصرے بند ہیں.