توانائی اور وسائل کو چینلائز کریں!

67

اسے وسائل کی کمی کہیں ، بدنیتی کہیں یا نالائقی کہیں ٹائٹل جو بھی ہو بات کا مفہوم یہی ہے کہ حکومت عوام سے جا بجا ٹیکس تو وصول کر سکتی ہے اور ان پر ڈائریکٹ اور ان دائریکٹ طریقوں سے مہنگائی کا بوجھ بھی ڈال سکتی ہے لیکن ان کی بہبود کا سوال ہو تو بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گویا ان ہی سے وصول کیا گیا پیسہ انہیں پر لگاتے ہوئے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ ان کی ترجیح تو اپنے اللے تللوں، عیاشیوں، پروٹوکول اور مراعات ہے۔
غریب آدمی بیچارہ تو بس دو وقت کی روٹی ، چھوٹے موٹے علاج ، سر چھپانے کی جگہ اور بعض اوقات اپنے بچے کی تعلیم کا متقاضی ہے ۔ کئی معاشی ماہرین اس قسم کا تجزیہ پیش کر چکے ہیں کہ اگر حکومت اور اراکین اسمبلی کی عیاشیوں، خسارے میں چلنے والے اداروں ، بجلی اور گیس کی چوریوں اور آئی پیپیز کی لوٹ مار کو ختم نہیں تو کم ہی کر دیا جائے تو شائد نہ تو ائی ایم ایف سے قرضوں کی ضرورت پڑے اور نہ ہی یہاں لوگ بھوکے مریں۔
بات تھی حکومت کی خود غرضی اور کرپشن کی، لیکن اس کے علاوہ ایک اور عنصر بھی عوام کی مشکلات کو کم نہیں ہونے دیتا ، اور وہ ہے بدانتظامی اور نااہلی یعنی اگر وسائل موجود بھی ہوں لیکن ان کا مناسب طریقے سے استعمال نہ ہو تو اس کا نقصان بھی عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ سالہاسال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پی آئی اے، ریلویز اور سٹیل مل جیسے اداروں میں نہ تو خسارہ کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور نا ہی انہیں پرائیوٹائز کیا جا رہا ہے اور ابوں روپے سبسڈی کی مد میں جھونکے جا چکے ہیں، کئی آئی پیپیز بجلی کا ایک یونٹ تک فراہم کیے بغیر اربوں روپے بٹور چکی ہیں، لاکھوں کی تعداد میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ لوگ اربوں روپے کی مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ غرض حکمرانوں کی سسٹم میں بہتری لانے پر کوئی توجہ نہیں بس بات مراعات یا کرپشن کے مواقع سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
بد انتظامی کی بات کریں تو حکومتیں ہسپتالوں کی تعداد اور ان کی صلاحیت بڑھانے کی بات تو کرتی ہیں، اس سلسلہ میں خاطر خواہ فنڈ بھی مہیا کیے جاتے ہیں لیکن ایسے اقدامات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کی لوگ بیمار ہی کم پڑیں۔ اگر محکمہ صحت، شہری حکومتوں، وزارت کھیل، وزارت خوراک اور امور نوجوانان کے ساتھ مل کر کچھ ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ لوگ صحت مند رویے اور طرز زندگی اپنایں( لوگوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانے کی اشیا اور صاف پانی فراہم کیا جائے اور ان کی روٹین میں ورزش وغیرہ شامل کی جائے) تو وہ بیمار ہی کم پڑیں گے اور اگر بیمار کم پڑیں گے تو ہسپتالوں پر لوڈ خودبخود کم ہو جائے گا۔
چند روز قبل میرا ملازم گھر کے گیٹ کے سامنے ریمپ پر گاڑی دھو رہا تھا تو محکمہ واسا کو کوئی مہربان اس کی تصویر کھینچ کر لے گیا اور اگلے ہی روز مجھے دس ہزار روپئے جرمانہ کا نوٹس آ گیا ۔ نوٹس لانے والے صاحب نے یہ بھی واضح کر دیا کہ قانون کے مطابق اگر میں نے جرمانہ بروقت ادا نہ کیا تو جرمانہ کی رقم میرے پانی کے بل میں لگ کر آ جائے گی۔ واسا ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر اور متعلقہ ایکسین سے احترام کا رشتہ ہے ان سے رابطہ کر کے جرمانہ معافی کی استدعا کی تو ان کا دو ٹوک جواب تھا کہ وہ اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس معاملہ کو واٹر کمشن دیکھتا ہے اور کھینچی گئی تصویر متعلقہ پورٹل پر اپ لوڈ ہو جاتی ہے اس کے بعد جرمانہ کی ادائیگی کے علاوہ کوئی بھی آپشن موجود نہیں رہتا۔
چونکہ مسلہ میرا ذاتی تھا اس لیے کچھ غصہ بھی آیا لیکن ٹھندے دل سے سوچا تو اچھا بھی لگا کہ چلو ریمپ پر گاڑی دھونے کی حد تک ہی سہی ملک میں قانون کی حکمرانی تو ہے۔ پھر خیال آیا کہ حکومت ہر وقت شہر کی صفائی کا نظام بہتر بنانے کی باتیں بھی کرتی رہتی ہے اور کافی حد تک کوششیں بھی کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ واسا کی طرح کا کوئی سخت قانون سڑکوں ، گلیوں، بازاروں اوردیگر پبلک مقامات پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والوںکے لیے بھی متعارف کروا دیا جائے۔ااس قسم کی حرکت کے مرتکب افراد کو بھاری نقد جرمانہ کے ساتھ کم از کم ایک دن کی قید بھی ہو۔ یقینا اس قسم کا قانون لاگو ہوتے ہی شہر صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک نظر آنا شروع ہو جائے گا اور صفائی کے لیے بھی غیر معمولی کوششیں ، کاوشیں اور اخراجات نہیں کرنے پڑیں گے۔ پورے ملک میں بالعموم اور بڑے شہروں میں بالخصوص امن واماں کا قیام ایک بڑا مسلہ ہے حکومت پولیس کے اندر مختلف قسم کے ونگز بنا کر، پیٹرولنگ کے زریعے اور ناکے وغیرہ لگا کر جرائم کو کنٹرول کرنے اور مجرموں کو گرفتار کرنے کی کوششیں اور کاوشیں کرتی رہتی ہے لیکن جرائم کا بڑھتا ہوا گراف ظاہر کرتا ہے کہ یہ تمام تر کوششیں ناکافی ہیں ۔ اگر شہروں میں صرف سیف سٹی کیمروں کا موثر اور فعال نظام قائم کر دیا جائے تو اس سے ناصرف جرائم کی روک تھام اور انہیں کنٹرول کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے بلکہ اس کی مدد سے ٹریفک کا نظام بھی قابو میں آ جائے گا اور بے ضابطگیاں کرنے والے ناقابل تردید شواہد کے ساتھ قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
تعلیم کا فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ بھی ایسے مسائل ہیں جن پر ہر حکومت بات تو کرتی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج پیش کرنے سے قاصر رہتی ہیں ۔ اگر حکومت میڑک، انٹر، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی ڈگریز کے حصول کے لیے ایک خاص تعداد میں لوگوں کو بنیادی تعلیم دینا لازم کر دے تو یقینا اس سے تعلیم کے فروغ میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے ۔حکومت کے مختلف طریقوں سے ٹیکس اکٹھا کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو بھی وہ حکومتی فیصلوں کے سامنے بے بس ہے ۔ بے انتہاشہ ٹیکسوں کی وجہ سے ملکی صنعتیں بھی زوال کا شکار ہیں، بے روزگاری بھی حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے اس لیے حکومت اگر ان صنعتوں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے جویک حد سے زیادہ لوگوں کو روزگار مہیا کر رہی ہیں تو اس سے حکومت کو تو شائد کچھ زیادہ نقصان نہ ہو لیکن بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی ضرور آئے گی۔ حکومت کے نقصان کا ازالا تو شائد انہیں صنعتوں میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں پر عائد ٹیکس اور پھر انہیں تنخواہوں کے پیسوں کو خرچ کرنے کی صورت میں وصول ہونے والے بلاواسطہ ٹیکس کی صورت میں پورا ہو جائے لیکن اس قسم کا سرکل بنانے سے کم از کم بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی آنے کی توقع ہے۔ حکومت کے پاس موجود تھنک ٹینک عوام کی بہبود کے لیے یقینی طور پر اس قسم کی اور اس سے بہت بہتر تجاویزپیش کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس قسم کی تجاویز کو خوش آمدید کہے تاکہ تو عوام کو ریلیف اور فائدہ پہنچنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی سیاسی فوائد حاصل ہو سکیں۔

تبصرے بند ہیں.