جلسوں کی ضرورت کیا ہے ؟

96

پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے بعد لاہور جلسے کی بدترین ناکامی اپنی جگہ مگرمیرا سوال ہے کہ جلسوں کی ضرورت کیا ہے۔ اب جو پارٹی جلسہ کرر ہی ہوتی ہے وہ پانچ ہزار کے جلسے کو پانچ لاکھ کابتاتی ہے اور مخالف پچاس ہزار کو پانچ ہزار ماننے پربھی تیار نہیں ہوتے، پھر اے آئی سے جنریٹڈ ویڈیوز اور فوٹو شاپڈ پکچرز شیئر ہوتی ہیںیعنی جھوٹ۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ جلسوں کی کیا ضرورت ہے تو میں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ستر یا اسی کی دہائی کے مقابلے میں اس صدی میں کمیونیکیشن کے ڈائنامکس مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ الیکٹرانک کے بعد سوشل میڈیا کا انقلاب آ چکا ۔ جب میں نے صحافت شروع کی تھی تو سیاسی رہنمائوں کی پریس ریلیزز آیا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھی یا ملازمین ان کی خبریں ہارڈ کاپی کی صورت یا فیکس پر بھیجا کرتے تھے مگر اب فیس بک کچھ کم اور ٹوئیٹر ( یا ایکس) کہیں زیادہ آفیشل پلیٹ فارمز کے طور پر سامنے آ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان ہوں یا مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز شریف، وہ ٹوئیٹ کرتے ہیں تو الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا بھی اسے اٹھا لیتے ہیں یعنی آپ نے جو کہنا ہے وہ گھر بیٹھے صرف اپنے موبائل فون پر چند لمحے کی ٹائپنگ کے ذریعے کہہ دیا اور وہ سب تک پہنچ گیا۔ اب لمبے چوڑے انفارمیشن سیکرٹریٹ کی اس طرح ضرورت نہیں جس طرح ماضی میں کبھی ہوا کرتی تھی۔
بہت سارے لوگ یہ دلیل دیں گے کہ اس کے ذریعے پارٹی متحرک ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ تحرک کا فائدہ کیا ہوتا ہے، کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم جلسوں میں کی جانے والی گفتگو کے معیار پر جائیں تو بالعموم وہ تھرڈ کلاس ہوتی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ لے سکے جیسے سنگجانی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے تقریر میں اخلاقیات کے بدترین زوال کی ایک تصویر پیش کی، انہوں نے ایک خواتین سیاستدانوں اور صحافیوں کی بھی تضحیک کی کیونکہ وہ توجہ لینا چاہتے تھے۔ اس کے بعد حکومت نے پی ٹی آئی کی گرفتاریاں شروع کر دیں یعنی جلسے نے فائدے کی بجائے اخلاقیات ہی نہیں سیاسیات کے میدان میں بھی نقصان پہنچایا۔ سنگجانی میں ہونے والے جلسے سے پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزرا کے لیول کے لیڈر بھی غائب رہے جس نے پارٹی کی تنظیم اور اتحاد کو بھی ایکسپوز کیا جبکہ دوسری طرف حکومت پر دبائو دیکھا جائے تو وہ زیرو رہا بلکہ حکومت نے تقریر کے بعد جارحانہ ردعمل دیا۔ میری تجویز ہے کہ ایسے جلسوں کی بجائے اگر ’ٹارگٹڈ میٹنگز‘ کی جائیں تو وہ زیادہ مؤثر ہیں یعنی آپ کسی بھی شہر میں اپنے عہدیداروں کے اجتماعات کر لیں تاکہ وہ آپ سے گائیڈ لائن لے سکیں، انجمن تاجران وغیرہ سے اپنی معاشی اور اقتصادی پالیسیوںپر بحث و مباحثہ کر لیں، کسی بھی شہر کی تنظیموں کے ساتھ آئینی اور قانونی ایشوز پر گپ شپ رکھ لیں تو اس کے ذریعے پارٹی کی پالیسی بھی واضح ہوسکتی ہے اور زیادہ بہتر رابطے بھی قائم ہوسکتے ہیں۔
میرے اس عنوان کے پیچھے ایک دوسری دلیل بھی ہے کہ ہم بہت زیادہ سیاسی بخار میں مبتلا معاشرہ ہوچکے۔ سیاسی کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر تقسیم بلکہ نفرت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہمیں سیاست کے اس بخار کوکم کرنا ہے۔ یہ بڑھا ہوا درجہ حرارت ہمارے منہ کے ذائقے کو بھی تبدیل کر رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے بخار کرتا ہے اور اچھی بھلی غذا بھی بدذائقہ لگنے لگتی ہے۔ میں جلسوں کو دیکھتا ہو ں اور آج کی مہنگائی کے ساتھ جمع تفریق کرتاہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بڑے جلسے پر کم و بیش دس، بارہ کروڑ روپے خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔ اس میں کارکنوں کا وہ خرچ الگ ہے جو وہ ذاتی حیثیت میں اپنی ذات پر کرتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ جلسہ ہو رہا ہوتا ہے اس علاقے کی انتظامیہ ذمے داریاں نبھانا بندکر دیتی ہے۔ ڈپٹی کمشنروں سے لے کر کلرکوں تک سب ’ مصروف ‘ ہوجاتے ہیں اور معمول کے کام ٹھپ۔ بہت سارے مقامات پر کسی ہنگامے یانقصان سے بچنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ تک بند کر دی جاتی ہے بلکہ ستم تو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان تک ہوجاتا ہے ۔ کچھ سڑکیں اور علاقے جلسے کرنے والے بند کر دیتے ہیں یا جلوسوں سے زندگی اجیرن کرتے ہیں تو دوسری طرف کئی سڑکیں اور علاقے حکومتیں سکیورٹی کے نام پر بند کر دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کا حاصل حصول کیا ہے محض چند بری بھلی تقاریر، چند اعلانات، چند نعرے، چند وعدے۔ آپ سب اس کے گواہ ہوں گے اب تو جلسوں میں بھی لیڈروں کے پاس کہنے کے لئے کچھ نیا نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ اس سے پہلے روز روز کی میڈیا ٹاکس یا سوشل میڈیا پوسٹس میں کہہ چکے ہوتے ہیں، رہی سہی کسر ٹی وی پروگراموں میں نکل جاتی ہے۔ ان جلسوں میں سکیورٹی کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ میں تھوڑاعرصہ پہلے سوشل میڈیا پر یہ رپورٹس دیکھ کر حیران اور پریشان رہ گیا کہ ایک سیاسی جماعت کے خیبرپختونخوا جلسے میں ایک سے زیادہ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
کئی لوگ دلیل دیں گے کہ جلسے اکنامک ایکٹیویٹی جنریٹ کرتے ہیں۔ میں سے اتفاق کرتا ہوں مگر انہیں بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ اتفاق کرنا ہوگا کہ یہ ایکٹیویٹی ، پروڈیکٹیو نہیںہوتی۔ اس میں بجلی سے ٹیکس تک کی چوری ہوتی ہے، بہت سارے کاروبار اور ادارے بند بھی ہوتے ہیں جیسے ان جلسوں سے ایک مرتبہ لاہور کی مال روڈ کے تاجر بہت تنگ آئے اور انہوں نے لاہور ہائیکورٹ سے ان کے خلاف حکم حاصل کر لیا۔مان لیجئے، ان جلسوں میں کالے دھن کا استعمال ہوتا ہے جو کسی طور پر بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ سینکڑوں فٹ لمبے سٹیج، ہورڈنگز ، بل بورڈز کچھ لوگوں کی انا کی تسکین اور ان کی جھوٹی واہ واہ کے سوا کیا فائدہ دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کچھ لوگ جلسوں پر اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ عوام سے رابطے کا ذریعہ ہیں تو میرے خیال میں انہیں انتخابی مہموں تک کے لئے محدود کردینا چاہئے کہ جہاں کہیں الیکشن ہو رہا ہے وہاں انتخابی جلسے کر لئے جائیں جیسے اب جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں بڑے امیدوار کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اب یکطرفہ جلسوں کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان منشور اور کارکردگی پر مباحثوں کو فروغ دینا ہوگا ورنہ یہ جلسے کیا ہوتے ہیں کہ آپ اپنے ہی حامیوں کے سامنے اپنی ہی وہ باتیں دہر ادیتے ہیں جن پر آپ پہلے سے متفق ہوتے ہیں۔جلسوں کا یہ کلچر بھی نہیں کہ وہاں کارکنوں اپنی قیادت سے سوال کر سکیں، وہ صرف نعرے لگا سکتے ہیں اور تالیاں بجا سکتے ہیں یعنی کارکن وہاں مفعول کے طور پر موجود ہوتے ہیں جس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کمیونیکشن اور کنیکٹیویٹی کے اس کلچر کو بدلنا ہوگا، اسے جدید اور مفید بنانا ہوگا چاہے اس کے لئے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ہی کیوںنہ ترمیم کرکے ان بے مقصد،فضول اور وقت سمیت وسائل کا ضیاع کرتے جلسوںپر پابندی لگانی پڑے۔

تبصرے بند ہیں.