کل جب بیلٹ بکس کھلے گا؟

96

لاہور کی ٹریڈ سیاست کا سب سے بڑا امتحان… بڑا انتخاب، بڑے کھلاڑی… بڑا جوڑ دونوں اطراف جیت کے دعوے، دونوں گروپس نے تین ماہ تک بڑی اعصابی جنگ لڑی اور اس جنگ کا فیصلہ کل بیلٹ بکس کرے گا۔ لیڈرشپ، ورکر اور ووٹر… کل سب کا لکھا پرچہ سامنے آ جائے گا۔ کون پاس کون فیل تو کون کل پہلی پوزیشن لے گا… رہے نام اللہ کا… معافی چاہوں گا کچھ تلخ و شیریں باتیں کرنے جا رہا ہوں کہ کل ہونے والے انتخابات زوروں کے مقابلے میں کس طرح تبدیل ہوئے۔
گزشتہ روز لاہور چیمبر کے سب سے بڑے انتخابات کی انتخابی مہم ختم ہو گئی۔ کل 23ستمبر کو کارپٹ اور 24ستمبر کو ایسوسی ایٹ کے ووٹرز اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ دو بڑے گروپس کے درمیان کانٹے دار مقابلہ، دو گروپس کے درمیان بڑا جوڑ، دو گروپس کے درمیان تلخ و شیریں بیان بازی کے بعد کل کون جیت کر لاہور چیمبر کا حکمران بنتا ہے؟ کون بنے گا صدر اور کون ہوں گے نئے ای سی ممبران۔ ان کی قسمت کل اور پرسوں ووٹر لکھے گا کہ اب قلم ووٹر کے ہاتھ میں ہے تقریباً تین ماہ سے انتخابی جنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اس جنگ نے زور اس وقت پکڑا جب پرانے نئے تو نئے پرانے اتحاد میں داخل ہوئے، جوڑ توڑ کی روایات کو بھی دیکھا گیا، پیاف میاں شفقت علی جو آج سے چار ماہ قبل خاموش تھے اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پیاف انجم نثار گروپ اور فاؤنڈرز کے درمیان دراڑ پڑے گی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فاؤنڈر میاں شفقت علی کی پیاف کو گلے لگا لے گا۔ کہتے ہیں کہ انہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اس نے ہو کر رہنا ہے کسی بھی خوشی کسی بھی غمی اور کسی بھی کام کے ہونے کے لیے ایک بات نے تو ہونا ہے اور اب علی حصام جو گزشتہ دو سال سے اپنی جماعت کو انتخابی اکھاڑے میں لانے کی بھرپور تیاری کر چکا تھا اور دونوں گروپس کے درمیان اس کی آنکھ مچولی جاری تھی جیسے جیسے انتخابی ماحول بننا شروع ہوا اور پھر اس لیڈرشپ کا امتحان بھی شروع ہوا کہ کون بطور لیڈر خود کو منواتا ہے۔ اب یہ اتحاد بن رہے ہیں۔ نئے پرندوں نے پرانے گھونسلے چھوڑ کر نئے گھونسلوں میں پناہ لے لی کچھ پرندے ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے جب پیاف میاں شفقت علی نے پائنیر گروپ کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی، مذاکرات ہوئے اور علی حسام کو بارہ سیٹوں کی آفر تاجروں کے حلقوں میں بڑی بات قرار دیا جا رہا تھا مگر علی حسام کی کمزور قیادت اور کمزور فیصلوں نے اتحادی تصویر کو پھاڑ دیا۔ اس دوران میاں انجم نثار کی قیادت کا بھی امتحان تھا اور سب اس خیال میں تھے کہ پیاف فاؤنڈر لاہور کا انتخابی معرکہ بڑے آرام سے کلین سویپ کر لیں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔ علی حسام کا پیاف میاں شفقت علی کے ساتھ نہ چلنے کا اعلان اور پھر اچانک فاؤنڈر کا جہاز پیاف کے دروازے پر اترا تو پھر سب نے دیکھا کہ قیادتوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ میاں انجم نثار کی قیادت میں ایک بنا بنایا گھر کیوں ٹوٹ گیا؟ دوسرا سوال یہ ہوا کہ میاں شفقت علی کی پیاف میں چھ سابقہ صدور کیوں گئے اور انجم نثار کے ساتھ دو صدور کیوں رہ گئے۔ میاں انجم نثار کی پیاف کیوں توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی؟ کہیں نہ کہیں تو خلاء پڑا کسی نہ کسی نے تو اس اتحاد میں ڈینٹ ڈالا۔ سب جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں اطراف کون آستین کا سانپ کا کردار ادا کر رہا تھا یہ میری ذاتی رائے ہے اس سے ہر کوئی اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے مگر میری رائے یہ ہے کہ اگر ناصر حمید جس نے پیاف کے بڑوں کے آگے اپنی اپنی صدارت کی بات کی جس کو رد کر دیا گیا یہ تھا وہ ٹرننگ پوائنٹ جب پوری لاہوری ٹریڈ سیاست نے نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ کسی نے اس کو خاندانی لڑائی قرار دیا، کسی نے ٹریڈ اسٹیبلشمنٹ جبکہ صورتحال ان سب باتوں کے برعکس تھی اگر میاں انجم نثار ایک سال کے لیے ناصر حمید کی صدارت کا اعلان کر دیتے تو میرے نزدیک انتخابی ماحول ایک بہت بڑی جنگ میں تبدیل نہیں ہونا تھا۔ نہ فاؤنڈر نے پرانے گھر کو الوداع کہنا تھا اور نہ میاں شفقت کی پیاف کو ایک دم بام عروج ملنا تھا جن کے بارے بار بار یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ آٹھ کا ٹولہ ہے اور ٹریڈ سیاست میں اس کو بزرگ قیادت کا نام دیا گیا… رہے نام مولا کا جب وہ تقدیر بدلتا ہے تو پھر آٹھ سے ہزاروں میںلکھ ڈالتا ہے۔
اندرون خانہ میرے سورس نے اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے بارے جن کرداروں کا ذکر کیا اگر ان کو واضح کر دوں تو پھر ایک دوسرے سے ایمان اٹھ جائیں گے جب پیاف فاؤنڈر کا اتحاد ہوا، جب علی حسام نے پہلے اکیلے تو پھر اچانک انجم نثار گروپ کے ساتھ دس سیٹوں کے بدلے میں اتحاد کیا تو اس وقت علی حسام کی کمزور قیادت پر بڑے سوالیہ نشان اٹھ گئے کہ دو سال کی ان تھک محنت کے بعدسیاست کے خاتمے کا اعلان جنگ اور نوجوان قیادت کا نعرہ تو اس وقت وڑ گیا جب پائنیر نے پیاف میاں انجم نثار کی پناہ مانگ لی۔ یہ ٹریڈ یا ملکی سیاست میں جب اتحادی سیاست ہوا کے رخ پکڑتی ہے تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ رات کے دوست صبح آپ کے مخالفین کے ساتھ جپھیاں ڈال رہے ہوتے ہیں کسی کا ہاتھ نہ چھوڑنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اتحاد آنے والی سیاست کے تجربہ کار ہوتے ہیں کوئی توڑ ساتھ نہیں ڈالنا ہے تو کوئی راستے میں چھوڑ دیتا ہے۔
کل امتحان ہے لیڈرشپ کا کل امتحاد ہے ووٹر کا کل سب کچھ سامنے آ جائے گا کل یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کس کے وعدے پورے تو کون ناکام ہوا… البتہ ایک بات جو دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ دونوں بڑے گروپس نے دن رات ایڑی چوٹی کا زور لگایا سب نے سونے نہ کسی کو سونے دیا۔ بہت بڑا معرکہ تھا دونوں گروپس نے اپنی اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا دونوں اطراف کی قیادتوں نے ڈور ٹو ڈور ووٹر کے دروازے پر دستک دی۔ کسی کو ہاں کسی کو نہ کی تو کسی کو مطمئن کرکے واپس بھیجا گیا۔ زیادہ نئے چہرے میدان میں اتارے گئے ہیں نعرہ ہے ایک سے پندرہ کو پینل ووٹ دو میرے نزدیک یہاں شخصیات کا ووٹ بھی موجود ہے اور زیادہ ووٹ وہ ہے جس کو خاموش ووٹ کا نام دیا جا رہا ہے جو دونوں اطراف اپنا کردار ادا کرکے جیتی یا ہارتی صورتحال میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ آج امتحان ہے اس قیادت کا جو ووٹر کو صبح سے رات 9بجے تک بیلٹ بکس لک لے آیا آج تو جنگ ہے ووٹر اور بیلٹ بکس کی کہ جب رات کو بیلٹ بکس کھلیں گے تو پھر تین ماہ کی انتخابی جنگ میں بننے والے اتحادوں کی کارکردگی بھی سامنے آ جائیگی۔ آج یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کون ٹریڈ سیاست کا بڑا لیڈر ہے کس کی قیادت پر ووٹر نے اعتماد کیا ہے کل پتہ چلے گا کہ آنے والے دو سالوں میں ٹریڈ سیاست کے کون رخ بدلے گا؟
اور آخری بات…
دو بڑے گروپس کل جب فائنل راؤنڈ کھیلیں گے تو اس بات کو سامنے ضرور رکھیں کہ آپ سوسائٹی کا سفید کالر ہیں اور اس سفید کالر کو داغ نہ لگنے پائے۔ یہ کوئی پہلے یا آخری انتخابات نہیں ہیں۔ اب تو ہر دو سال کے بعد انتخابات ہوں گے۔ دونوں گروپس کو بڑے اعتماد، بڑی دوستی کے ماحول میں انتخابی رنجشیں بھلا کر گلے شکوے دور کرکے انتخابات کو پرامن بناتے ہوئے ایک بڑی مثال بھی بنانا ہے۔ اقتدار آنی جانی شے ہے آپ کل بھی ایک تھے اور کل بھی ایک ہوں گے۔ ہارنے والے خندہ پیشانی سے جیتنے والوں کی پیشانی کو چومیں ان کو گلے لگائیں ایک نے تو ہارنا ہے جیت مقدروں کا کھیل ہے جس کے مقدر کھل گئے وہی جیتے گا۔ ہم سب کی نظریں بیلٹ بکس پر ہیں۔ 23ستمبر کی رات کو ہوا کا رخ بدل جائے گا جو 24ستمبر کو ہونے والے انتخابات پر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور چھوڑے گا۔ کل دونوں گروپس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے افہام و تفہیم کی بنیاد رکھنا ہے۔ آج بھی آپ کا ہے کل بھی آپ کا ہے۔ آج کو اچھا بنائیں گے تو کل خوبصورت ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.