ڈسپوزیبل کلچر

78

ہماری مادی ترقی کی تاریخ بس اتنی پرانی ہے کہ کئی باغات نے کمرشل عمارتوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور لہلہاتے کھیتوں نے رنگا رنگ ہاؤسنگ کالونیوں کا روپ دھار لیا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات نے ہمارے مکانوں سے ہجرت کر لی ہے اور اب یہ میرج ہالز میں قیام پذیر ہیں۔اب شادیوں پر نہ گھروں کی دیواریں مْسکراتی ہیں اور نہ ہی یہاں مہمانوں کا پڑاؤ ہوتا ہے۔ بعض بے رنگ اور بے ذائقہ شادیوں میں تو نو بیاہتے جوڑے کے استقبال کے لیے سیج تک نہیں ہوتی بلکہ کسی سفید رنگ ہوٹل کے بے جان سویٹ میں انھیں نئی زندگی کا آغاز نصیب ہوتا ہے۔ اب خوش ہونے کی فرصت ہے اور نہ ہی غم منانے کی مہلت۔
بیسویں صدی کی آخری نسل نے جو کلچر کچھ عشرے پہلے دیکھا تھا وہ موجودہ تہذیبی اور ثقافتی منظر نامے سے خاصا مختلف تھا۔ روایتی کھانے تو ہمارے بڑوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے تھے اب گھروں میں وہ برتن بھی نایاب ہیں جو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ گھروں میں آرائشی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ بڑی بڑی طاقوں اور کارنس پر انھیں دھو کر سجا دیا جاتا تھا۔
ان کی جگہ ڈسپوزیبل برتنوں نے لے لی ہے۔ جو ماں کے جہیز میں آئے ہوئے تانبے یا سلور کے برتنوں کی طرح عمر بھر ساتھ نہیں نبھاتے بلکہ انھیں تو نگاہ بھر کر دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ہمارے نزدیک ان کا سب سے بڑا اور اہم تعارف یہ ہے کہ ان تمام اشیا کو استعمال کے فوراً بعد ہی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اپنے زیر استعمال اشیا کے اس تعلق نے انسانی سماجیات اور زندگی کے سبھی عناصر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان ڈسپوزیبل اشیا نے ایک نفسیاتی واردات یہ کی ہے کہ انھوں نے روز مرہ کاموں میں زیر استعمال ہر چیز کے ساتھ ہمارا جذباتی لگاؤ اور تعلق ختم کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلقات اور رشتے میکانیکی صورت اختیار کر گئے ہیں اور جدید حسیت میں ان کے لیے بہت کم گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ قریبی رشتوں کا تعارف کچھ فرائض یا ذمہ داریوں کی صورت میں ہوتا ہے اور باقی رشتوں کا کوئی مناسب یا قابلِ قبول تعارف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پہچان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ضرورت کا یہ تعلق انسانوں کے مابین بھی اسی ترتیب سے قائم ہونے لگا ہے۔بس آپ کسی بھی شخص کو ڈسپوزیبل اشیا کی طرح برت کر ضائع کر دیجے۔ اب تعلق ضرورت کے وقت وجود پاتے ہیں اور دوستیاں موقع کے حساب سے طے ہوتی ہیں۔ کھانے کے اسباب ریفریجریٹروں سے لے کر بینکوں تک میں جمع کیے جاتے ہیں۔
تہذیبی اور نظریاتی ترقی کا یہ عالم ہے کہ آج کھانے پینے کی اشیا کی افراط کے باوجود ہمیں ریفریجریٹر کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ زائد کھانا اس میں سنبھال کر رکھا جا سکے جبکہ ہم بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ اس دور میں ضرورت سے زائد کھانا دوسروں میں بانٹ دیا جاتا تھا جب خوراک کے وسائل محدود تھے اور کھانے کی اتنی افراط نہیں تھی۔ گویا ریفریجریٹر کی ایجاد نے ہمیں ذہنی طور پر اتنا غریب کر دیاہے کہ بچا کھچا کھانا بھی تقسیم کرنے یا بانٹ دینے کے قابل نہیں رہے۔ اگر کسی معاشرے میں نظریاتی اور فکری ترقی کا عمل رک جائے تو اس میں وجود پانے والی مادی ترقی پورے معاشرے کو پیچھے کی طرف دھکیلتی رہے گی۔ معاشرے اپنے تخلیقی امکانات کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرتے ہیں ان کی ترقی کا تعلق بیش قیمت اشیا کی خریداری سے نہیں ہوتا۔ صرف صارفین پیدا کرنے والا معاشرہ کتنی ترقی کر سکتا ہے؟؟؟
کھانے پکانے کے عمل اور طور طریقے کا تہذیب و ثقافت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ باورچی خانوں اور دکانوں میں پیدا ہونے والی تخلیقی سرگرمیاں کسی قوم کے مزاج اور تخلیقی رویے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹی۔ایس ایلیٹ نے انگلستان کے کلچر کے زوال پذیر ہونے کی وجہ یہ قرار دی تھی کہ وہاں کھانا پکانے کے عمل سے بے اعتنائی برتی جانے لگی ہے۔ آج ہماری حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
ہمارے غیر تخلیقی رویوں کا یہ عالم ہے کہ ہم نے اپنے روایتوں کھانوں اور طور طریقوں کو اپنے بڑوں کے ساتھ ہی رخصت کر دیا ہے اور موجودہ رہن سہن میں کسی عمدہ اضافے کی سبیل نہیں کر سکے۔ ہمارے رشتوں اور تعلقات کے ساتھ ساتھ دسترخوان بھی سمٹ گیا ہے اور اس کی وجہ صرف معاشی بد حالی نہیں ہے۔ انتظار حسین کے بقول شاہ جہاں سے برا وقت کس پر آیا ہو گا جس کے باورچی کو قید میں صرف ایک اناج کے انتخاب کی اجازت دی گئی تھی اور اس باورچی نے چنے کا انتخاب کیا تھا۔ اس انتخاب کے حق میں استدلال یہ تھا کہ وہ باورچی صرف چنے سے ساٹھ قسم کے کھانے تیار کر سکتا تھا۔ تاج محل اسی باورچی کے دور میں تعمیر ہو سکتا تھا جب ہماری تخلیقی صلاحیتیں روز مرہ امور میں نکھرتی اور پروان چڑھتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ پھر ہمیں تاج محل چھوڑنا پڑا۔ ہم کاغذی پیراہن میں لپٹے فریادی کی طرح ڈسپوزیبل رشتے بناتے اور بگاڑتے جارہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.