جدید ٹیکنالوجی اور کوڈ کے ذریعے لبنان میں دھماکے

117

لبنان، بیروت اور اس کے تمام علاقوں میں زندگی رواں دواں تھی کہ اچانک ہر طرف چھوٹے چھوٹے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اور کئی افراد زخمی ہو کر گر پڑے۔ شروع میں تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی ہر طرف ایمبولینس کے ہارن اور آہ و بکا سنائی دی، لیکن چند گھنٹوں میں یہ خبر سامنے آئی کہ وہاں جن لوگوں کے پاس پیجر ڈیوائسز موجود تھیں وہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اڑا دی گئی ہیں۔ لبنان بھر میں پیجرز پھٹنے سے کم از کم نو افراد کی موت ہوئی جبکہ لبنان میں تعینات ایرانی سفیر سمیت 2800 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ اس سے اگلے دن یعنی بروز بدھ 18 ستمبر کو بیروت سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں واکی ٹاکیز پھٹنے کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے جبکہ 450 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح بدھ کو لبنان کے دارالحکومت بیروت سمیت جنوبی علاقے میں حزب اللہ کے زیر استعمال دستی ریڈیوز پھٹنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
مندرجہ بالا خبریں انتہائی تشویشناک تھیں جس پہ اب مختلف ممالک بھی رد عمل دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ’شہریوں کے زیر استعمال اشیا کو ہتھیاروں سے لیس نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں ایک بریفنگ کے دوران مزید کہا کہ ’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے کہ شہری اشیا پر موثر کنٹرول ہو، اور انہیں ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ایک قاعدہ ہونا چاہیے جس پر حکومتیں عمل درآمد کرائیں۔“ اس طرح امریکہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”لبنان میں ہونے والے ’پیجر دھماکوں کا امریکہ کو علم تھا اور نہ ہی اس کا ان سے کوئی تعلق ہے۔“ اسی حوالے سے وطن عزیز پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ”اسرائیل کی مہم جوئی علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل سے
جواب طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان لبنان کی خود مختاری اور سلامتی کی مکمل حمایت کرتا ہے۔“ جب کہ ایران نے اسے صہیونی حکومت کا دہشت گردانہ عمل کہہ کر مذمت کی اور اسے قتل عام کی مثال قرار دیا ہے“۔ ایک خبر کے مطابق جن پیجرز میں دھماکہ ہوا ہے وہ ایک ہزار ڈیوائسز والی اس ایک کھیپ کا حصہ ہیں جو حزب اللہ کی جانب سے حال ہی میں درآمد کی گئی ہے۔‘ گولڈ اپولو سے تقریباً تین ہزار پیجرز کا آرڈر دیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر اے آر 924 ماڈل کے تھے۔ اس حادثے کے متعلق پہلے ہمیں سکیورٹی ماہرین کی رائے کو بھی جاننا ضروری ہے۔ برسلز سے تعلق رکھنے والے فوجی اور سکیورٹی تجزیہ کار ایلیاہ میگنیر نے اس متعلق کہا ہے۔ کہ ’اسرائیل کو پیجرز کی نئی کھیپ میں دھماکہ خیز مواد شامل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر ان آلات کی سپلائی چین تک رسائی کی ضرورت ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی انٹیلی جنس نے پروڈکشن کے عمل میں دراندازی کی ہے اور بغیر کسی شک و شبہ کے پیجرز میں دھماکہ خیز مواد اور ریموٹ ٹریگرنگ میکانزم شامل کیا ہے، جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ یہ آلات فروخت کرنے والا تیسرا فریق اسرائیل کی جانب سے اس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ’انٹیلی جنس فرنٹ‘ ہو سکتا ہے۔جب کہ پیجر بنانے والی تائیوان کی کمپنی ”گولڈ اپولو“ نے اپنے بیان میں ڈیوائسز میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ لبنان میں پھٹنے والے پیجر اس نے نہیں بلکہ بی اے سی نامی کمپنی نے بنائے ہیں جس کے پاس اس کا برانڈ استعمال کرنے کا لائسنس ہے۔ اے آر-924 ماڈل بی اے سی نے تیار اور فروخت کیا تھا۔ان کے بیان میں کہا گیا کہ گولڈ اپولو نے ’بی اے سی کو مخصوص علاقوں میں مصنوعات کی فروخت کے لیے اپنا برانڈ ٹریڈ مارک کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے لیکن مصنوعات کے ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ کو مکمل طور پر بی اے سی سنبھالتی ہے۔‘ سو چنگ کوانگ نے قبل ازیں کہا کہ لائسنس رکھنے والی فرم یورپ میں قائم ہے لیکن بعد میں بی اے سی کے مقام پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرم کی جانب سے ترسیلات زر میں مسائل تھے۔
ان حالیہ حملوں پہ ابھی مزید سکیورٹی و ٹیکنالوجی کے ماہرین کی تفصیلی رائے سامنے نہیں آئی لیکن یہ ایک ایسا حملہ ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، پہلے ففتھ جنریشن وار اور سائبر حملے ہوتے تھے لیکن یہ اس سے بھی زیادہ ایڈوانس حملہ اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے صہیونی ریاست کی طرف سے مسلم علاقوں میں خونی کھیل کھیلا گیا ہے۔ ان حملوں کو نہ تو ہم سائبر کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ففتھ جنریشن وار۔ بلکہ یہ ڈیوائس بم حملہ ہے جسے ففتھ جنریشن وار کا ایڈوانس کہہ سکتے ہیں۔ ابھی تک دستیاب معلومات کے مطابق حزب اللہ نے ایک یورپی ملک سے 10,000 پیجر منگوائے تھے، اس حوالے سے اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کو خبر ملی۔ اس نے سفارتی و انٹیلی جنس چینل کی مدد سے دس ہزار پیجرز کی مکمل کنسائنمنٹ کو قبضہ میں لے کر اس میں فی کس 20 گرام ہائیلی سینسیٹیو ایکس پلوسیو بارود لگایا اور اس کو اسپیسیفک اسرائیلی کوڈ سے منسلک کردیا جو منگل کو صبح کے اوقات میں بلاسٹ کیے گئے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ پیجرز نیوزی لینڈ یا ڈنمارک میں بنا کر اسرائیلی انٹیلی جنس کی مدد سے مہلک بنائے گئے تھے۔
آنے والا وقت کیسا ہو گا، مزید یہ کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں بھی زبردست تیزی آ رہی ہے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے دشمن کو کیسے زیر کیا جائے گا؟ اب ہر ملک کے سکیورٹی ماہرین اور تھینک ٹینک یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی بقاء کے لیے نئی نسل کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے علم سے ضرور آراستہ کرنا ہو گا۔ تا کہ وہ جدید ڈیوائس کی مینوفیکچرنگ اپنے ممالک میں کر سکیں۔ ورنہ دشمن ہماری طاقت کو محض ایک پیجر کے ذریعے اڑا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.