پچھلے کئی دنوں سے وفاقی دارالحکومت میں نئی تجویز شدہ عدالتی آئینی ترامیم کے بل کو ایوان زیریں اور ایوان بالا سے پاس کرانے کے لئے بہت گہما گہمی رہی۔ حکومت کا دو تہائی اکثریت نا ہونے کی وجہ سے سارا زور مولانا فضل الرحمان کی حمائت حاصل کرنے پہ رہا اور دوسری جانب حزب اختلاف بھی اس مجوزہ بل کے خلاف مصروف رہی۔ پوری قوم نے دیکھا کہ جہاں حکومتی نمائندگان مولانا کے گھر سے رخصت ہوتے وہیں کچھ دیر بعد حزب اختلاف وہاں آ براجمان ہوتی۔ قصہ مختصر اس سارے کھیل میں مولانا کی حمایت یا مخالفت کا کلیدی کردار دیکھنے میں آیا اور آخر تک حکومت ان کی مکمل حمائت سے محروم رہی۔
لیکن اس سب میل ملاپ کے ساتھ ان مجوزہ عدالتی ترامیم کے اہم نکات اور انکی اہمیت و ضرورت پہ روشنی ڈالنا ضروری ہو گیا ہے۔
بلاشبہ اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ ڈھانچے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ایسی تبدیلیاں، جن کو مختلف دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور میڈیا پرسنز کی طرف سے عدلیہ کی خود مختاری اور آزادی کیخلاف گردانا جا رہا ہے۔
پہلی اہم مجوزہ عدالتی و آئینی تبدیلی ایک الگ، آزاد اور خود مختار آئینی عدالت کا قیام ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں تقریبا 58000 سے زائد کیس زیر التوا ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ جن میں یا تو مدعی مقدمہ کئی دھائیوں کے انتظار کے بعد وفات پا چکا ہے یا پھر اپیل میں جانے والے ملزمان شنوائی کا انتظار کرتے کرتے جیل کی کوٹھریوں میں ہی دنیا سے چل بسے ہیں۔ اور اس تعداد میں روزانہ کی بنیاد پہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب یہ دیکھنا ضروری ہو گیا ہے کہ آخر سپریم کورٹ میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے یکے بعد دیگرے آنے والے پچھلے کئی چیف جسٹس صاحبان نے سپریم کورٹ کو جس طریقے سے چلایا، جس طرح سوو موٹو لے کر یا من پسند رٹیں یا اپیلیں فائل کرا کر ہفتوں اور بعض کو مہینوں تک سنا جاتا رہا وہاں ملک کی سب سے بڑی آئینی و قانونی عدالت کے جج صاحبان کو دیگر زیر التواء مقدمات سننے کا وقت اور موقع ہی نا مل سکا۔ مزید برآں انتہائی اہم آئینی معاملات پہ جس طرح من پسند اور ہم خیال جج صاحبان کے بنچ بنائے اور یک طرفہ فیصلے صادر کئے جاتے رہے وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اب اگر صرف آئینی معاملات کو دیکھنے اور ان پہ فیصلے دینے کے لئے ایک الگ آئینی عدالت کا قیام زیر غور ہے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟ کم از کم ایسا ہونے سے موجودہ سپریم کورٹ اپنے اصلی کام اور سالہا سال سے زیر التوا مقدمات کی طرف واپس جا سکے گی اور سپریم کورٹ اپنی راہ داریوں میں انصاف کے لئے بھٹکتے عوام الناس کو زیر التوا مقدمات میں انصاف فراہم کر کے اپنا بوجھ کم کر سکے گی۔ یہیں دوسری طرف نئی آئینی عدالت نا صرف آئینی معاملات، ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر سن سکے گی بلکہ آئین پاکستان کا دفاع اور گمبھیر و مبہم آئینی شقوں کی بہتر تشریح بھی کر سکے گی۔ اس لئے اس وقت نئی آئینی عدالت کا قیام ناگزیر بھی ہے اور انتہائی اہم بھی۔ اس آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہوگی اور ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے۔
اسی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے بھی نیا نظام وضع کیا جا رہا ہے جس میں سپریم کورٹ کے تین سینئر موسٹ جج صاحبان میں سے ایک کا تقرر قومی اسمبلی کی نامزد کمیٹی کرے گی جس میں حکومتی اور اپوزیشن ممبران کی تعداد برابر ہو گی۔ اور اس کمیٹی کی سفارش پہ جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آئینی عدالت مقرر کرنے کا اختیار وزیراعظم کو منتقل کرنے کی تجویز ہے جو قومی اسمبلی اس آٹھ رکنی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں یہ تقرریاں کریں گے۔ یقینا ایسا ہونے سے وزیر اعظم اور پارلیمان کی قدر و منزلت میں بے پناہ اضافہ ہو گا اور پارلیمانی سپریمیسی کا خواب حقیقت کا روپ دھارے گا۔ کیونکہ دنیا بھر میں ہر مہذب معاشرے، ہر مضبوط جمہوریت میں ہمیشہ ان ممالک کے الیکٹڈ سربراہ حکومت ہی یہ تقرریاں کرتے آئے ہیں۔
یہاں ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ جیسے ماضی قریب میں قوم نے دیکھا کہ کس طرح پچھلے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے من پسند افراد کی ہائی کورٹس میں تقرریوں کے لئے حکومتوں کو بلیک میل کیا اور صریحاً اپنی پسند کے افراد کو ان کی بشری کمزوریوں اور نااہلیوں کے باوجود زبردستی ہائی کورٹس میں تعینات کرایا۔ یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اور پھر ان میں سے ہی کچھ جج صاحبان نے صرف ذاتی پسند نا پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ماوراء آئین و قانون کئی متنازع فیصلے بھی دیئے۔ جس سے اعلیٰ عدلیہ کی پورے ملک میں جگ ہنسائی بھی ہوئی اور عوام کے اپنی عدلیہ پہ اعتماد میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی۔ لیکن اب حکومت وقت نے ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے جج صاحبان کی تقرریوں کا نظام بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ احسن فیصلہ کیا ہے۔ نئے مجوزہ نظام میں یہ تقرریاں ایک کمیشن کرے گا جس میں نئی آئنی عدالت کے چیف جسٹس اس کے سربراہ ہوں گے اور اس کے ممبران میں آئینی عدالت کے دو سینئر جج صاحبان، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر جج صاحبان ہوں گے۔ ان کے علاوہ ملک کے لاء منسٹر، اٹارنی جنرل، ایک سینئر ایڈووکیٹ اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے دو دو ممبران بھی اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ نئے جج صاحبان کی تقرریاں میرٹ پہ ہونگی اور قابل اور اہل افراد ہی ہائی کورٹس کے جج بن سکیں گے۔
آخر میں ان مجوزہ آئینی ترامیم پہ ان کے ناقدین سے پوچھنا چاہوں گا کہ مثالیں تو آپ سب مغربی جمہوریتوں اور مغربی نظام انصاف کی دیتے ہیں، موازنہ مغربی جمہوریتوں کے ساتھ کرتے ہیں اور جب وطن عزیز میں ممبران اسمبلی اور سینٹ اس ضمن میں صحیح سمت میں قدم اٹھا رہے ہیں تو پھر تنقیدی نشتر کیوں؟ خدارا ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر صرف ملک اور اس کے انصاف کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے غریب عوام کا سوچیں۔ اور پھر سچے دل سے اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا موجودہ نظام انصاف ٹھیک ہے؟ یقینا تعصب اور سیاست سے کی عینک اتارتے ہی آپ کو جواب ملے گا کہ اس میں تبدیلی وقت کی اہم صرورت ہے۔ لہٰذا قصہ مختصر یہ مجوزہ عدالتی ترامیم انتہائی اہم بھی ہیں اور ملک کے عدالتی نظام کو مزید فعال اور بہتر بنانے کے لئے صحیح سمت میں ایک احسن قدم بھی۔
کاش کہ یہ بات مولانا فضل الرحمان بھی سمجھ سکیں اور ان ترامیم میں حکومت کا ساتھ دے کر قوم کو موجودہ و بوسیدہ عدالتی نظام پہ بد اعتمادی اور ہیجانی کیفیت سے نجات دلاتے ہوئے اک نئے اور موثر عدالتی نظام کا تحفہ دیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.