میرے ایک دوست، جن کا نام یہاں بوجوہ نہیں دیا جاسکتا، کا حال یہ ہے کہ اْنھوں نے اگر مجھ سے دس وعدے کیے تو اْن میں سے صرف ایک ہی وفا ہوسکا۔ باقیوں کے بارے میں کل کردوں گا، اِسی ہفتے کردوں گا کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ چند ایک وعدوں کو تو کیے ہوئے کئی برس گزر گئے ہیں۔ میرے دوست پر ہی کیا موقوف ہے۔ ہمارے معاشرے میں معدودے چند ایک کے کسی کو بھی یہ اِحساس نہیں کہ وعدہ کرکے مکر جانا کس قدر بھیانک فعل ہے۔ ہم جو مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں، شمع رِسالت کے پروانے ہونے کے مدعی ہیں، ہمارا عام زِندگی میں یہ حال ہے کہ ہم روزانہ کے حساب سے بیسیوں وعدے کرتے ہیں۔ لیکن اْن میں بہت کم ہی وفا ہوپاتے ہیں۔ پھر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کوئی وعدہ کیا بھی تھا۔یہ بیماری پاکستانی معاشرے میں اِتنی عام ہے کہ اَب کوئی اِس پر توجہ ہی نہیں کرتا کہ وعدے کی اللہ تعالیٰ کے نزدِیک کیا اَہمیت ہے۔
سب سے پہلے ہم قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ ایک جگہ اِرشاد ہے "اَور وعدے کو پورا کیا کرو۔ بے شک وعدے کے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔’’(سْورۃ بنی اِسرائیل۔ آیت 34)۔ ایک اَور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ‘‘اَے لوگو جو اِیمان لائے ہو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدِیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو نہیں کرتے۔’’ (سْورۃ الصف۔ آیات 2-3)۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا‘‘منافق کی تین نشانیاں ہیں خواہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اَور خود کو مسلمان کہتا ہو۔ یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اَور جب کوئی امانت اْس کے سپرد کی جائے تو اْس میں خیانت کرے۔” (بخاری،مسلم)۔ ایک اَور حدیث مبارکہ میں اِن میں ایک صفت کا اَور اِضافہ کیا گیا ہے کہ جب لڑے تو اخلاق اَور دیانت کی حدیں توڑ ڈالے۔(بخاری، مسلم)۔ آپ غور کریں کہ کیا یہ آیات اَور احادیث ہماری موجودہ حالت کا دْرست نقشہ نہیں کھینچ رہیں۔ کیا ہم نماز روزہ کرکے یہ سمجھنے نہیں لگے کہ اَب ہماری نجات پکی ہے خواہ ہم کچھ بھی کریں؟ چنانچہ آپ دیکھیں کہ اِن احادِیث کی رْو سے آپ کو پاکستان میں منافقوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود کو جنتی سمجھ کر پھرتی نظر آئے گی حالانکہ قرآن کے مطابق منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جائے گا۔ کیا کسی کو فکر ہے کہ وہ یہ جانے کہ اِیفائے عہد کی کیا اَہمیت ہے؟ کیا مسجد کے منبر سے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ وعدہ پورا کرنا کتنا ضروری ہے؟
اِس کے علاوہ سورۃ الاعراف کی آیات 133 سے136تک میں اِرشاد ہے ’’پھر ہم نے اْن (فرعونیوں) پر طوفان، ٹڈی ، جوئیں، مینڈک اَور خون بھیجا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ آئیں۔ لیکن اْنہوں نے تکبر کیا اَور وہ مجرم لوگ تھے۔ جب اْن پر کوئی عذاب آتا تو کہتے ‘اَے موسیٰ! تمہارے رَبّ کا جو عہدتمھارے ساتھ ہے، اْس کی بنیاد پر ہمارے لیے اْس سے دْعا کرو۔ اگر تم ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دو گے تو ہم ضرور اِیمان لے آئیں گے اَور بنی اِسرائیل کو تمھارے ساتھ جانے دیں گے۔، پھر جب ہم اْن پر سے اْس مقررہ مدت کے لیے، جس پر اْنہیں پہنچنا تھا، عذاب ہٹا لیتے تو وہ فوراً (اَپنے عہد) سے پھر جاتے۔ پھر ہم نے اْن سے اِنتقام لیا۔ اَور اْنہیں سمندر میں غرق کردِیا کیونکہ اْنہوں نے ہمارے آیات کو جھٹلایا تھا اَور اْن سے بے پروا تھے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ خلافی کرنے والے ایک ہی شخص کی مثال دی ہے، اَور وہ فرعون ہے۔ گویا وعدہ خلافی فرعونی عمل ہے۔ ہم میں سے کسی کو فرعون کہہ دیا جائے تو وہ صرف یہ سمجھتا ہے کہ اْسے متکبر اَور جابر کہا جارہا ہے۔ حالانکہ اْس میں اَور بھی برائیاں تھیں۔ قرآنِ حکیم نے اْس کی ایک برائی کو کھول کر بیان فرمایا اَور وہ وعدہ خلافی ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے اْس سے اِنتقام لیا۔ یہاں اِنتقام کا لفظ اللہ تعالیٰ کے اْس غصے اَور نفرت کو ظاہر کرتا ہے جو اْسے فرعونیوں سے تھی کہ وہ وعدہ کرکے مکر جاتے تھے اَور اللہ تعالیٰ کی آیات کا اِنکار کرتے تھے۔
تمام فقہائے کرام اِس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی اِنسان کسی دْوسرے سے کوئی وعدہ کرے تو اْسے پورا کرنا لازم ہے سوائے اْس صورت کے کہ وہ عمل گناہ کا ہو۔ صرف اْس صورت میں وعدہ توڑا جاسکتا ہے۔ اَب آپ اَپنے چاروں طرف دیکھیں۔ یہاں ہر طرف وعدے کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ میں کل یہ کام کردوں گا، میں اْس وقت پہنچ جاؤں گا، میں تمہارا کام کروادوں گا، اگر اَیسا ہوگیا تو میں وہ کام کروں گا۔ بے شمار لوگ وہ ہیں جو جب وعدہ کررہے ہوتے ہیں اْسی وقت وہ جانتے ہیں کہ وہ اِسے پورا نہیں کریں گے۔ دْوسرے وہ ہیں جو وعدہ کرکے اْسے دریا میں ڈال دیتے ہیں اَور نہایت سہولت سے بھول جاتے ہیں۔ اگر کوئی یاد دِلا دے تو صرف ایک سوری کہہ دیتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا۔ یاد نہ رہنا دراصل یہ بتاتا ہے کہ اْن کی نظر میں اْس بات، اْس وعدے کوئی اَہمیت نہیں ہے۔ اگر اْن کے گھر کے افراد میں سے کوئی اْنہیں کوئی کام کہے یا کوئی اَیسا کام ہو جس سے اْنہیں کوئی مالی فائدہ حاصل ہونا ہو تو وہ اْنہیں ایک سال بعد بھی یاد رہے گا۔ تو یہ یادداشت کی کمزوری کا مسئلہ نہیں ہے، وعدے کو اَہمیت دینے کی بات ہے۔ ہم میں سے اکثریت اْن لوگوں کی ہے جنھوں نے قرآن سمجھ کر پڑھا ہے اَور نہ ہی حدیث اَور سیرت کا مطالعہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ اَپنے بیخبری اَور جہالت میں مست اندھیروں میں بھٹکتے، ٹھوکریں کھاتے ایک دِن موت کی وادی میں اْتر جاتے ہیں۔ جب اْن سے پوچھا جائے گاتو وہ آرام سے کہہ دیں گے کہ ہم نے تو قرآن پڑھا ہی نہیں تھا۔ اِس بات کے کہنے پر اْنہیںاللہ تعالیٰ کے جس غضب کا سامنا کرنا ہوگا اْس کا کسی کو اَندازہ نہیں ہے۔ یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے درختوں اَور جانوروں کے لیے نازِل نہیں فرمایا۔ یہ ہمارے لیے آیا ہے۔ اِسے سمجھنا اْتنا ہی ضروری ہے جتنا کھانا کھانا اَور زندگی کے دِیگر کام کرنا۔ ہم دْوسرے کاموں میں گم ہوکر اِس سب سے اَہم کام کو بھول جاتے ہیں۔
اِس وعدہ خلافی کا ایک اَور پہلو بھی ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَور یاد کرو جب تم (تعداد میں) تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور اَور بے بس سمجھا جاتا تھا، (اَور) تم ڈرتے تھے کہ کہیں (لوگ) تمہیں مٹا نہ ڈالیں۔ پھر اْس نے تمہیں جائے پناہ عنایت فرمائی اَور اَپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اَور تمہیں پاکیزہ رِزق عطاء فرمایا تاکہ تم شکرگزار بنو۔‘‘مسلمانانِ ہند نے اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اگر تو نے ہمیں اپنا ملک دے دِیا جہاں ہم اِسلامی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرسکے تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے اَور اَپنی زندگیاں اِسلامی اصولوں کے مطابق بسر کریں گے۔ اْنھوں نے کہا کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا اِلہ اِلا اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان دے دِیا۔ لیکن ہم اَپنا وعدہ بھول گئے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اِسلامی اصول کے تحت زندگی بسر کرنے کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہاں اِسلامی نظام قائم ہوجائے۔ اِسلامی نظام سے اْن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہاں اِسلامی سزائیں نافذ ہوجائیں۔ حالانکہ اِسلامی سزائیں تو تب نافذ ہوں گی جب یہاں زندگی اِسلامی اصولوں کے تحت بسر ہورہی ہو۔ لوگ اِیمان دار ہوں اَور اِیمان داری کے تحت زندگی بسر کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی ہو۔ لوگ سچ بولتے ہوں۔ ملاوٹ نہ ہو۔ لوگ دوسروں کی جان، مال اَور عزت کا احترام کرتے ہوں۔ یہ سب کچھ تو معاشرے میں ہے ہی نہیں۔ تو وہ سزائیں کیا کرلیں گی؟ سزائیں دینے والے بھی بے اِیمان ہوں گے تو اِنصاف کسے ملے گا؟تو پہلے تربیت کی جاتی ہے پھر نظام نافذ ہوتا ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کرکے بھی توڑ دِیا۔ اْس کا وبال اَب ہم اْٹھا رہے ہیں۔جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھ سے تو جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو مجھے غالب کا وہ شعر یاد آجاتا ہے
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
Next Post
تبصرے بند ہیں.