امیر زادوں اور امیر زادیوں کی کہانی

27

گزشتہ ماہ نتاشا نام کی ایک عورت نے اپنی امارت اور اوپر سے نشے کی حالت میں باپ بیٹی کو کچل کر انہیں سڑک پر ہی موت کی نیند سلا دیا۔ نتاشا پکڑی گئی پتہ چلا کہ وہ تو ایک بہت بڑے رئیس خاندان کی بہو ہے۔ پھر ہسپتال سے خبریں چلیں کہ وہ پاگل ہے۔ وہ نفسیاتی مریض ہے وہ نشہ کرتی ہے اگر یہ سب باتیں مان بھی لی جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس کا نفسیاتی پن، پاگل پن، اس کا نشئی ہونا کیا اس بڑے گھرانے کو پہلے سے یہ سب کچھ علم نہیں تھا، کیا اتنے بڑے سیٹھ نے آنکھیں بند کرکے بڑے گھرانے کی بیٹی سے شادی کر لی، بچے ہو گئے پھر بھی وہ ذہنی مریضہ نہیں تھی اور جیسے ہی نشے کی حالت میں وہ 2زندگیوں کے ساتھ کھیل جاتی ہے تو اس کو بچانے کے لیے وہ کون سے غیر قانونی راستے تھے جو نہیں اپنائے گئے۔ گزشتہ دنوں جیل سے اس کی تصاویر وائرل ہوئی ہیں اور کس قدر مضبوط نیٹ ورک ہے کہ نتاشا جیل میں بڑے آرام دہ بیڈ پر براجمان ہیں۔ اس طرح کے پاکستانی جیلوں میں پڑے بیڈ کو دیکھ کر تو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ جیل میں ہے یا جیل میں اتنے خوبصورت بیڈ بھی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک تو اتنے خوبصورت بیڈ تو ہم نے یورپی جیلوں کے بھی نہیں دیکھے۔ میری معلومات کے مطابق دانش اقبال علی محمد پاکستان کے بڑے بزنس مین خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ جب خاندان میں گل احمد انڈسٹریز کا بٹوارہ ہوا تو ان کے حصے میں بھی ٹیکسٹائل ملز کے کچھ یونٹ آئے۔ نیو جرسی اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکہ اور پھر شارجہ یونیورسٹی آف امریکہ سے اپنا BBA مکمل کیا اور پھر انہوں نے وراثتی کاروبار کو سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے 2012ء میں گل احمد انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ بنائی اور بطورِ چیئرمین اپنا پاور پلانٹ لگایا فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا شروع کی اور کے الیکٹرک کو سپلائی شروع کردی۔کچھ عرصے بعد ونڈ انرجی پر کام کیا اور مزید ایک پاور پلانٹ جو تقریباً 60 میگاواٹ پر مشتمل ہے اس کو بھی نیپرا کے ساتھ معاہدے کے بعد نیشنل گرڈ میں شامل کردیا اس طرح یہ تقریباً 100 میگاواٹ پر مشتمل آئی پی پیز کے مالک ہیں۔یہ تو اس امیر خاندان کا بیک گرائونڈ ہے جبکہ میرا اصل موضوع دانش اقبال علی محمد نہیں بلکہ ان کی اہلیہ نتاشہ ہے جو 19 اگست کی شام عصر اور مغرب کے درمیان کارساز کی سروس روڈ کو استعمال کرتے ہوئے غالباََ اپنے گھر یا گھر سے باہر جارہی تھی۔ یقین سے کہنا تو مشکل ہے مگر بظاہر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ نشے میں مبتلا تھیں اور اسی وجہ سے اس کی لینڈ کروزر اس سے بے قابو ہوگئی اور پھر گاڑی کی زد میں جو آیا کچلا گیا۔اس نے نہیں دیکھا کہ سامنے کس قدر قیمتی جانیں ہیں جو اس کی قیمتی گاڑی نے روند ڈالیں۔

اس کی گاڑی کی زد میں آنے والی آمنہ عارف جو اقراء یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور اپنے والد کے ساتھ شاید اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے کے لئے نکلی تھی موقع پر ہی دونوں باپ بیٹی نے دم توڑ دیا ان کے علاوہ مزید 4 افراد بھی اس کی گاڑی کی زد میں آئے۔ ان میں سے 2لوگ اور مر گئے تھے۔

اب ان کو کروڑوں میں معاوضہ پتہ نہیں ملا مگر باپ بیٹی کا خون معاف کروانے کے لیے بہت بڑی دولت کا کھیل کھیلا گیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقع ہمارے ہاں دو خواتین میں ایک وہ خاتون جس کے تحت دولت کے ذریعے قانون کو خریدا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو کچل دیا جاتا ہے مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں اور پھر یہ کیسے ممکن ہو گا کہ دانش اقبال پاکستان کے آئی پی پیز کے مالک تھے اور جو سرکار اس کے پاور پلانٹ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی، ان پلانٹس کا فارنزک آڈٹ نہیں کروا سکتی وہ بھلا اس امیر زادی پر ہاتھ ڈالنے کی اوقات کہاں سے لائے گی؟سڑکوں پر گھومنے والے ہم اور آپ جیسے غریب غرباء لوگ ان ’’ہستیوں‘‘ کے سامنے کمی کمیوں سے زیادہ نہیں ہوتے۔ پولیس ان کی ٹائوٹ اور قانون ان کی لونڈی اور ریاست ان کی باندی اور یہ تینوں اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور ایک ہی آواز کو سر حکم… ملزمہ تھانے سے جیل کی سلاخوں تک وی آئی پی اے سی والے کمرے میں ٹھہرائی جاتی ہے اس کو فون، اے سی اور ٹی وی کے علاوہ ٹک ٹاک کی بھی مکمل سہولت ہے اس لیے کہ امیرزادی بیچاری پاگل ہے، نشہ کرتی ہے اور اس کو جیل کے اندر گھر کی تمام امیرانہ سہولیات میسر ہیں۔ یہ تو ایک نتاشا کی بات ہے اس طرح کی کئی امیر زادیاں، امیر زادے روزانہ انہی سڑکوں پر موت کے کھیل کھیلتے ہیں، غریبوں کو کچلتے ہیں، ان کو موت کے حوالے کرتے ہیں، کتنوں کو معذور تو کتنوں کو لاچار اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنے اوپر زیادتی برداشت کر جاتے ہیں مگر وہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹا نہیں سکتے… پکار نہیں سکتے… اور رو بھی نہیں سکتے…

اور آخری بات…!
کبھی کبھی مکیش کا یہ گیت ایسے واقعات رونما ہونے پر بہت یاد آتا ہے۔
دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی
کاہے کو دنیا بنائی تو نے کاہے کو دنیا بنائی
دنیا بنانے والے نے تو دنیا بنانی تھی اس نے بنا دی اور اس کو اجاڑنے والوں نے بھی انتہا کرتے ہوئے ہزاروں زندگیوں، ہزاروں گھرانوں کو اجاڑ دیا۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا اور کاش اس ملک میں ایسا قانون بن جائے جس سے کم از کم امیر زادوں اور زادیوں کو پاگل، نشئی اور ذہنی بیمار قرار نہ دیا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں.