تیرے اعمال سے ہے تیرا پریشاں ہونا

21

زندگی کا ایک بڑا ہی بنیادی قانون ہے کہ اگر انسان حرص سے بچ گیا تو پھر وہ ہر بلا سے ہی محفوظ ہو گیا ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ’اور جس نے اپنے نفس کو حرص سے بچا لیا وہی فلاح پانے والے ہیں ‘۔(الحشر ۹)۔ انسان لالچ اور ہوس کی پیروی میں اپنی اشرفیت کی منزل اور ارزش سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں ادنیٰ مظالم سے لے کر استعمار اور ملک گیری تک سارے مظالم کی بنیاد یہی ایک حرص ہے جو دولت و اقتدار کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے اور پھر انسان کا پیچھا اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی ۔قرآن مجید میں قارون اور اس کی بے انتہا دولت ، اس کے تکبر اور عبرت انگیز انجام کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :۔ کوئی شک نہیں کہ قارون موسیٰ(علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا ۔پھر اس نے ان کے خلاف سرکشی کی ۔اور ہم نے جو خزانے اس کو دیئے تھے، وہ اتنے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت بھی مشکل سے ہی اٹھا سکتی تھی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی بے انتہا دولت پر) اترائو نہیں ، کیونکہ یقیناً اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا (سورۃالقصص) ۔ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا ،مگر اس نے اپنی قوم کو چھوڑ کر مال و زر اور جاہ و منصب کے لالچ میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کا ساتھ دیا تھا ۔دنیا کی حرص اور طمع کے لالچ نے انسان کو ظالم و خود غرض بنا دیا ۔ہزاروں سال پہلے تو صرف ایک قارون تھا ، لیکن آج اس دنیا میں لاکھوں قارون موجود ہیں جو دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں ۔حرص کی خواہش انسان کے اندرونی عدم اطمینان اور خوف کے باعث جنم لیتی ہے کہ کہیں وہ کسی دنیاوی کمی کا شکار نا ہو جائے اور پھر مال اور دولت کی یہ محبت انسان کے دل میں اس حد تک بیٹھ جاتی ہے کہ پھر انسان اسے عزت اور عظمت کا معیار سمجھنے لگتے ہیں ، مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن جاتا ہے اور جو اس سے محروم ہو اسے ہمارے سماج میں کچھ اہمیت حاصل نہیںہوتی۔ اس کے علاوہ معاشرتی دبائو، بیرونی ماحول، ثقافتی عوامل، مادی چیزوں کی نمائش اور مقابلہ بھی انسان کو حرص و ہوس کی طرف مائل کرتے ہیں، ایک ایسے معاشرے میں جہاں کامیابی کو مال و دولت یاعہدے کی بنیاد پر ناپا جاتا ہے، انسان فطری طور پر خود کو اس دوڑ میں شامل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ انسان اپنی عمر سے زیادہ کی آرزو کرتا ہے ، ایسے انتظامات کرتا اور ایسی بلند و بانگ عمارات بناتا ہے جن کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے ۔۔ حرص و ہوس بظاہر تو انسان کو وقتی طور پرخوشی دے سکتے ہیں مگر یہ ایک دائمی تسلسل ہے جو کبھی ، کسی صورت بھی ختم نہیں ہوتا ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :۔ ’تمھیں زیادہ (مال و دولت ) کی طلب نے غافل کر دیا ، یہاں تک کہ تم قبروں تک پہنچ گئے ‘۔انسان مال و زر جمع کرنے میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ تمام اخلاقیات کو تہہ دام تصور کرتے ہوئے صرف اور صرف مال جمع کرنے میں مصروف ہے ۔ مال و زر کی طلب نے ابنِ آدم میں ایسی بھوک پیدا کر رکھی ہے جو کسی بھی چیز کے حصول سے ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔دولت کی حرص انسان کیلئے وہ آزمائش ہے جو موت کی دہلیز تک اسے غفلت میں مبتلا رکھتی ہے ۔جتنا زیادہ انسان حاصل کرتا ہے اتنا ہی اس کی خواہشات بڑھتی جاتی ہیں ۔حرص و ہوس انسان کو اخلاقی پستی کی طرف لے جاتی ہے ، اس میں مبتلا شخص صرف دنیاوی فائدے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے اکثر حصولِ مقصد کے لیے غلط طریقے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اکثر یہ فرماتے : کہ اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تمنا کرے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابنِ آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی پُر کر سکتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں ۔اولادِ آدم آج اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون صرف دنیا وی کامیابیوں ، دولت اور مادی وسائل میں پوشیدہ ہے ۔ جب انسان مسلسل اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کا موازنہ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس کے پاس زیادہ سہولتیں ہیں تو وہ بھی ان چیزوں کے حصول کی کوشش کرتا ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :۔اور اگر یہ بات نا ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو جو لوگ خدائے رحمان کے منکر ہیں ، ہم ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی کر دیتے ،جن پر وہ چڑھتے ۔انسان کے اندر ہمیشہ کچھ نیا حاصل کرنے کی جستجو موجود رہتی ہے ، اور یہ جستجو بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے ، ایک اس کے اندرونی خوف اور دوسرا انسان کے بیرونی ماحول کے باعث۔ اندرونی خوف کا مطلب یہ کہ انسان کی یہ خواہشات اسے کبھی مکمل طور پرمطمئن نہیں ہونے دیتیں کیونکہ ہر نئی کامیابی کے بعد اس کی تمنائیں مزید بڑھ جاتی ہیں، وہ ہمیشہ ہی اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ ایک نا ایک دن ختم ہو جائے گا ۔یہ ایک ایسی دوڑ ہے کہ جس کا کوئی اختتام نہیں اور یہی احساس انسان کو اندرونی سکون اور ذہنی اطمینان سے محروم رکھتا ہے ۔ اسی طرح انسان کا بیرونی ماحول جیسے کہ معاشرتی دبائو ، چیزوں کی بے جا نمائش ، ترقی اور رہن سہن کا مقابلہ انسان کو مزید سے مزید کی لالچ میں مبتلا کرتا ہے ۔حضرت کعب بن عیاض ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم۰ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) ہر امت کے لیے ( کوئی نا کوئی ) فتنہ اور آزمائش ہے جس میں اس امت کے لوگوں کو مبتلا کر کے ان کو آزمایا جاتا ہے ، چنانچہ میری امت کے لیے جو چیز فتنہ اور آزمائش ہے وہ مال و دولت ہے ۔اور آج کل مال و دولت کا فتنہ اس قدر ہمارے معاشرے میں پھیل چکا ہے کہ قیامت کا منظر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں.