ملک میں آج کل اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کے چرچے ہر سو ہیں۔ حکومت نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے کہ کسی طرح سے وہ یہ آئینی ترمیم کر لیں۔ اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ کے اجلاس چھٹی کے دنوں میں بھی بلائے جا رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن اور اختر مینگل سمیت دیگر ناراض راہنمائوں کو منانے کے جتن بھی جاری ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تحریر چھپنے تک حکومت آئینی ترمیم پاس کرا چکی ہو۔ رپورٹس کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔لہٰذا ججز پر بم گرانے سے حکومت کو روکنا پاکستان تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت نمبر پورے کر لیتی ہے تو پھر آئینی ترمیم کو روکنا پی ٹی آئی کے بس میں نہیں ہوگا۔ تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے وضاحت کی درخواست پر جو فیصلہ دیا ہے اس کے بعد نمبر گیم پوری کرنا حکومت کے لئے بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن آئینی ترمیم حکومت کی بقا کے لئے ناگزیر ہے لہٰذا حکومت آئینی ترمیم کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ جبکہ دوسری طرف اڈیالہ میں بیٹھا کپتان بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کوشاں ہے ۔ جوڈیشل پیکیج کے نام پر جس طرح سے سپریم کورٹ کے پر کاٹنے کی تیاری ہو چکی ہے اسے ناکام بنانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف اپنی پوری کوشش میں لگی ہے۔آئینی ترمیم کی صورت میں پی ٹی آئی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور عمران خان کی اڈیالہ سے جلد رہائی بھی ناممکن ہو جائے گی۔ لہٰذا عمران خان نے پارٹی کو سڑکوں پر آنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کر دی ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ حکمران اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ترامیم پر ہم چپ کر کے بیٹھ جائیں گے تو یہ انکی بھول ہے۔ مزید یہ کہ پارٹی عوامی تحریک کی تیاری کرے پھر جو ہو گا اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔ عمران خان نے حکومت اور مقتدر حلقوں پر دبائو بڑھانے کیلئے سٹریٹ موومنٹ کا ٹرمپ کارڈ کھیلا ہے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی حکومت وقت پر ڈال دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس تحریک کی ضرورت پڑے گی یا مہم چلائے بغیر ہی دبائو کام کر جائے گا۔ اگر تحریک چلانا ضروری ہوا تو کیا پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو گی یا نہیں؟ دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ لوگ ریاستی ظلم، معاشی استحصال اور اپنے حقوق کی خاطر حکومتوں کیخلاف احتجاج کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ برس اسرائیل کے دارالخلافہ تل ابیب میں جوڈیشل اوورہالنگ کیخلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کرپشن سکینڈلز کے باعث عوام میں اپنا مقام کھو چکا تھا۔ وہ ایک ایسا متنازع قانون پاس کرنے کی کوشش میں تھا جس کا مقصد سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ اسرائیلی عوام کو اپنی سپریم کورٹ کے پر کٹتے منظور نہ تھے لہٰذا جوڈیشل اوورہالنگ کے خلاف تل ابیب میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تاکہ نیتن یاہو کو جمہوریت کمزور کرنے اور مزید کرپشن سے روکا جائے۔ اسی طرح 2011 میں امریکی حکومت کیخلاف ’’اکوپائے وال سٹریٹ موومنٹ‘‘ چلی جس کا مقصد امریکہ میں سیاسی اور معاشی ناانصافی کیخلاف آواز اٹھانا تھا۔ امریکی عوام نے حکومت کی غلط سیاسی پالیسیوں، مالی نظام میں بد عنوانی ، اقتصادی عدم مساوات ، کارپوریٹ سیکٹر کے جمہوریت پر اثرورسوخ، کرپشن اور لالچ کیخلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور یہ احتجاج امریکہ کے علاہ دیگر کئی ممالک تک پھیل گیا۔ دراصل 2007اور 2008 کا مالیاتی بحران اس احتجاج کی وجہ بنا۔ مالیاتی بحران کے نتیجے میں کساد بازاری عروج پر تھی اور معاشی بدحالی نے بہت سارے امریکیوں کے معیار زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے۔ امریکی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان آمدنی کا فرق بھی بڑھ گیا۔ حکمرانوں نے اس مالیاتی بحران کی ذمہ داری قبول نہ کی بلکہ ان الزامات سے بھی بچ نکلے۔ جس کی وجہ سے عوام کا پارہ چڑھ گیا اور وال سٹریٹ تحریک کا جنم ہوا۔ اس تحریک کا اثر یہ ہوا کہ 2016 میں ہونے والے انتخابات میں امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی نے آمدنی میں عدم مساوات کو ایک اہم ایشو بنا کر پیش کیا اور اس کو اپنے منشور میں شامل کیا۔ ابھی حال ہی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی آمریت پسند سوچ اور جابرانہ طرز حکومت کے خلاف طلبا نے سٹریٹ مہم کا آغاز کیا۔ بظاہر یہ احتجاج کوٹہ سسٹم کے خلاف تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ طلبا کی سڑکوں پر احتجاجی تحریک نے بنگلہ دیش کی تاریخ ہی بدل ڈالی اور ایک طاقتور حکمران کو دھول چٹا دی۔ عمران خان بھی کچھ ایسے ہی نتائج کی توقع رکھتے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لانے کی بست کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی دھمکی دی ہے کہ 70فیصد پاکستان قیدی نمبر 804کے اشارے پر اٹھتا ہے۔ اگر اس نے اشارہ کیا تو بنگلہ دیش کو بھول جائو گے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام واقعی بنگلہ دیشی عوام کی طرح مضبوط اعصاب رکھتے ہیں یا نہیں۔ کیا عوام انسانی حقوق کی پامالی، ریاستی جبر کے خلاف عمران خان کی کال پر سڑکوں اور گلی محلوں میں نکلیں گے یا نہیں؟ اگر نکلتے ہیں تو کتنی تعداد میں ہوں گے؟ کیونکہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا اندازہ عوام کی کثیر تعداد میں احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلنے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جتنی زیادہ تعداد میں عوام اپنا حق لینے کے لیے باہر نکلیں گے اتنا ہی دبائو حکومت وقت پر آئے گا۔ اگر عمران خان اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں تو بڑی تعداد میں عوام کو متحرک کرنا ہو گا وگرنہ عمران خان کا جارحانہ رویہ اور جلد بازی ان کے لئے مایوسی کا سبب بن سکتی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں سٹریٹ موومنٹ چلانا اور احتجاج بھاری پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ ڈیڑھ سال بعد بمشکل پی ٹی آئی کو ایک جلسہ کرنے کی اجازت ملی مگر جلسہ ابھی جاری ہی تھا کہ اسلام آباد کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ لہٰذا عمران خان کو سٹریٹ موومنٹ کے ممکنہ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ٹرمپ کارڈ سوچ سمجھ کر کھیلنا ہو گا۔ تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات سے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.