گندے نالے کے کنارے!

16

میرے گھر اور دفترکے راستے میں ایک گندہ نالہ پڑتا ہے جس کے کنارے کچرے کے ڈھیر پر عرصہ دراز سے خانہ بدوشوں کی پندرہ بیس جھگیاں آباد ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر مختلف عمر کے مرد و خواتین اپنی زندگی کے شب و روز بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان جھگیوں کے ارد گرد گندے نالے کا ماحول اس قدرگندا اور ناقابل برداشت بدبودارہے کہ پیدل چلنے والوں کے علاوہ گاڑیوں پر سوار لوگ بھی وہاں سے گزرتے ہوئے اپنے ناک پر رومال یا کوئی کپڑا رکھ لیتے ہیں۔دفتر آتے جاتے میری نظر جب بھی ان جھگیوں پر پڑتی ہے میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ حالات کے جبر کا شکار یہ کون لوگ ہیں اور ایسے گندے،غلیظ اور تعفن زدہ ماحول میں کیسے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولتو ں کے بغیر اپنے بڑ ے بوڑھوں اور بیوی بچوںکے ہمراہ موسموں کی شدت اور حدت میں ان کے دن رات یہاں کس طرح کٹتے ہیں۔ گندکی کے اس ڈھیر اور بدبو میں کیڑے مکوڑوں کی طرح جنم لے کر پرورش پانے اور پھر اپنی ساری زندگی اسی بدتر ماحول کی بھینٹ چڑھانے والے جھگیوں کے یہ غریب اور لاچار باسی کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیںاور کیاکسی ناکردہ جرم کی پاداش میںان کو ملنے والی یہ اذیت ناک سزا کبھی ختم بھی ہوگی یا نسل در نسل اس کاسلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ زندگی خاص طور پر ان کے لئے جبر مسلسل کیوں ہے اور زندگی سے ملنے والی پریشانیوں، دکھوں اور آزمائشوںکا یہ کس طرح سامنا کرتے ہیں۔ ان کے دن کا کب آغاز ہوتا ہے اور آب و دانے کی تلاش میں دن بھر کی خجل خواری اور مشقت کے بعدیہ شام یا رات کے کس پہر اور کس حال میں اپنی جھگیوں کو واپس لوٹتے ہیں ۔ شدید سردی یاگرمی میں کسی مکڑی کے گھر کی طرح اپنی کمزورجھگی یا کھلے آسمان کے نیچے بارش،آندھی ،طوفان میں بھیگتے اور سردی سے ٹھٹھرتے ان پر کیا گزرتی ہے ۔اس گندے اور غیر صحت مند ماحول میں یہ خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو مختلف بیماریوں سے کیسے محفوظ رکھتے ہیں۔ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کن ارمانوں میں گزرتے ہیں اوران کے بڑھاپے کی فکریں کیا ہوتی ہیں۔ان کے سینوں میںکیسی خواہشات جنم لیتی ہیں اوراپنے مستقبل کے حوالے سے یہ کیسے سپنے دیکھتے ہیں۔ یہ اپنی عیدیں، شبراتیں، شادی بیاہ اور خوشیوں کے دیگر تہوار کیسے مناتے ہیں۔ ان کی روایات اور اقدار کیا ہیں ان کے رشتے ناتے اور تعلق واسطے کن بنیادوں پر بنتے اورٹوٹتے ہیں۔ یہ زندگی کی خوبصورتیوں سے کس طرح اورکس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں اوران کا سجناسنورنا، ہنسنا گانا ،رونا دھوناکیسا ہے،ا ن کے پسندیدہ گیت ، گلوکار،کھلاڑی ،فلمی ہیرو یا ہیروئن کون ہیں ۔گندے نالے کے اس کنارے جہاں یہ برسوں سے نسل در نسل آباد ہیں وہاں سے ان کو ہماری دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے اور یہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والے بڑے بڑے واقعات سے ان کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز اور بڑے بڑے ہورڈنگز پر شہر میںبننے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں اور مختلف برانڈز اور فیشن کے رنگ برنگے کپڑوں اور جوتوں کے اشتہارات دیکھ کر ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے۔ ملکی و عالمی منڈیوں کے بھائو، سونے اور پیٹرول کی گھٹتی بڑھتی قیمتوں،ڈالر کے اُتار چڑھائو اورسٹاک ایکسچینج کے اوپر نیچے ہونے سے متعلق ان کو کس قدر جانکاری ہے اور اس سے ان کی زندگی پر کس قسم کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی سیاست اور دیگر کھیل تماشوں سے ان کو کتنی دلچسپی ہے، ان کی پسندیدہ سیاسی پارٹی کونسی ہے اور یہ اپنا پسندیدہ سیاسی لیڈر کس کو مانتے ہیں۔یہ اپنی خستہ حال جُھگیوں پر کس سیاسی پارٹی کے جھنڈے لگاتے ہیں اور کس سیاسی لیڈر کے جلسوں میں پولیس کے ڈنڈے کھا کر بھی اس کے نعرے لگاتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کس نے اس ملک کو لوٹا ہے کون ایماندار ہے،کون محب وطن اور کون غدار ہے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں میں اس نوعیت کے بیان کردہ قصے کہانیوں اور سوشل میڈیا پر کیے جانے والے پراپیگنڈے سے ان کو کتنی غرض ہے ۔ان کا سیاسی،سماجی اور مذہبی عقیدہ کیا ہے اور یہ دوسروں کے عقیدے کو کس نظر سے دیکھتے اور انہیں کتنا برداشت کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کے لئے جمہوریت کی اہمیت اورووٹ کی عزت ان کے نزدیک کیا حیثیت رکھتی ہے۔ملکی آئین اور قوانین کے مطابق ان کے بچوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں تعلیم،صحت اور روزگار کے کس قدرمواقع میسر ہیں ۔ یہ معاشرے کیلئے کیا کچھ کرتے ہیں اور بدلے میں معاشرہ ان کو کیا دیتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا سو فیصددرست اور مکمل جواب شاید کسی کتاب یا دانشور کے پاس نہ ہو اس کیلئے ہمیں اپنی معمول کی زندگی سے نکل کر کم از کم ایک باراس گندی اور بدبودار بستی میں جانا پڑے گا۔مجھے اندازہ ہے کہ صاحبان سیاست و اقتدار تو ملک و قوم کے’’ وسیع تر مفاد ‘‘میںہمہ وقت سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتیں بنانے گرانے کے شغل میں مصروف رہتے ہیں۔ان کے پاس اپنی گراں قدر مصروفیات میں سے ان’’ فالتو لوگوں‘‘ کے دکھ درد کوسمجھنے اورانہیں دور کرنے کے لئے کہاں وقت ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میںآپ اور ہم جیسے بے شما رعام لوگ جو اپنے کام پر آنے جانے کیلئے روزانہ اس گندے نالے کے قریب سے اپنی ناک اور آنکھیںبندکرکے گزرتے ہیں کیا ہمارے پاس بھی ان مسکینوںکیلئے کوئی وقت نہیں ہے ۔کیاہم نے بھی کبھی ایک لمحے کیلئے یہ سوچا ہے کہ اپنی روز مرہ مصروفیت میں سے کسی روز کچھ وقت نکال کر گندے نالے کے کنارے آباداس تعفن زدہ بستی میں جائیں اور ان میلے کچیلے غریب اور کمزور لوگوں میں بیٹھ کر وہاں سے ایک بار اپنی دنیا کا نظارہ کریں کہ وہاں سے ہماری دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے اورپھر پوری ایمانداری سے سوچیں کہ زیادہ گندگی اور بدبو اس گندے نالے کے کنارے پر آباد ان بے بس،مجبور اور لاچاروں کی اس بستی میں ہے یا دولت،طاقت ،اختیار اور ناانصافی کے بل بوتے پر قائم ہماری اس دنیا میں جہاںاُجلے تن اور میلے من والوں کے جھوٹ ،مکر فریب،خود غرضی اور بے حسی کا راج ہے۔

تبصرے بند ہیں.