ایک اور بغاوت کی کوشش

32

پاک فوج کے خلاف 9 مئی 2023ء کو ایک ناکام بغاوت ہوئی۔ افواجِ پاکستان کے لگ بھگ 200 مقامات پر شرپسند حملہ آور ہوئے لیکن پاک فوج نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور یوں عمران خاں کا لاشیں اُٹھا کر لاشیں لانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر عدلیہ کا آغوش وا ہوا اور 9 مئی کے ملزمان کو جائے پناہ مِل گئی۔ دھڑا دھڑ ضمانتیں ہوئیں اور رہائیاں بھی عمل میں آئیں۔ یہی نہیں بلکہ ’’بندیالی کورٹ‘‘ نے تو آئین کو Rewrite کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک سال چارماہ گزر چکے لیکن کس کی مجال جو اِن ملزمان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ صرف آرمی ایکٹ کے تحت 85 ملزمان موجود لیکن وہ بھی بندیالی کورٹ کے حکمِ امتناعی کی پناہ میں۔ گویا شرپسندوں کو یہ پیغام دیا گیاکہ وہ جو مَن میں آئے کریں، کس میں دَم ہے جو اُن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
یہی حوصلہ اب ایک اور بغاوت کے تانے بانے بُن رہا ہے اور فضاؤں میں 9 مئی ٹوکی سرگوشیاں جنم لے رہی ہیں۔ وہ علی امین گنڈاپور، جس کے ایک ایس ایچ او نے بال کاٹ دیئے تھے اب کھُلی دھمکیوں پر اُتر آیا ہے۔ 8 ستمبر کو سنگجانی کے جلسے میں ’’شہد‘‘ کے زیرِ اثر واہی تباہی بکتے ہوئے اُس نے حکمرانوں کو حکم دیا کہ وہ 15دنوں کے اندر عمران خاںکو رہا کر دیں وگرنہ وہ خود بزورِ طاقت رہا کرا لے گا۔ اُس نے 15دنوں بعد خیبر پختونخوا کا لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہونے کی دھمکی بھی دی۔ اُس نے صحافیوں، خصوصاً خواتین کے بارے میں انتہائی بیہودہ الفاظ کہے جس پر صحافیوں نے اعلان کر دیا کہ جب تک گنڈاپور معافی نہیں مانگتا وہ تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں کی پریس کانفرنسز کا بائیکاٹ کریں گے۔ 13 ستمبر کو تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں، سلمان اکرم راجہ، شبلی فراز اور رؤف حسن کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا گیا اور اُن کے سامنے سے مائیک اُٹھا لیے گئے۔ اِس پر سلمان اکرم راجہ نے صحافیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُن کی ایک ہی ضد تھی کہ جب تک علی امین گنڈاپور معافی نہیں مانگے گا، بائیکاٹ جاری رہے گا اُدھر گنڈاپور اپنی ضِد پر قائم۔
اِسی تقریر میں گنڈاپور نے پاک فوج کے بارے میں جو مُنہ میںآیا بَک دیا۔ گنڈاپور کی سنگجانی میں کی گئی تقریر کے رَدِعمل میں 9 ستمبر کی رات کو پارلیمنٹ کی حدود سے تحریکِ انصاف کے 8 پارلیمنٹیرینز گرفتار کر لیے گئے جس پر پارلیمنٹ کے تقدس کو مجروح کرنے کا شور اُٹھا۔ علی محمد خاں نے اِسے پارلیمنٹ کا 9مئی قرار دیا اور
لطیف کھوسہ نے اِسے سیاہ دن قرار دیتے ہوئے جمہوریت پر شَب خون مارنے اور آئین کی تضحیک کہا۔ یہ بجا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور مقدس بھی کیونکہ یہاں آئین سازی ہوتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اِس رسمِ بَد کا بانی کون؟۔ کیا پارلیمنٹ 2014ء کے دھرنے میں مقدس نہیں تھی جب اُس کے گیٹ توڑے گئے، دیواروں پر پوتڑے لٹکائے گئے، راستے بند کر دیئے گئے۔ کیا آئین اُس وقت معطل تھا جب وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ کیا گیا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، تھانے پر حملہ کر کے اپنے پیروکار چھڑائے گئے، یوٹیلٹی بلز سرِعام جلائے گئے، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کا کہا گیا اور سول نافرمانی کا اعلان ہوا۔ کیا قوم کا حافظہ اتنا ہی کمزور ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پر قاتلانہ حملے کو بھول جائیں؟۔ یہ عین اُس وقت ہوا جب دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اُس وقت تحریکِ انصاف کے موجودہ صدر چودھری پرویزالٰہی نے گجرات سے غنڈے منگوائے جنہوںنے ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا۔ آج بھی چودھری پرویزالٰہی کی اُن غنڈوں کو ہدایات دینے کی وڈیوز موجود ہیں۔ حقیقت یہی کہ یہ مکروہ رسم اور گالی گلوچ کا بیانیہ تحریکِ انصاف کے بانی کا پیدا کردہ ہے کیونکہ اُن کے نزدیک وہی ’’سکندر‘‘ جو گالی گلوچ میں یَدِطولیٰ رکھتا ہو۔ گنڈاپور کے 8 ستمبر کے جلسے کی تقریر پر بھی بانی نے یہی کہا ’’اُس نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے‘‘۔ جب صحافیوں نے یہ سوال اُٹھایا کہ تحریکِ انصاف کے کچھ رَہنما تو گنڈاپور کی اِس تقریر پر معذرت خواہ ہیں تب بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا ’’وہ بزدل ہیں اُنہیں پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ عمران خاںکے اِس بیان کے بعد سارے معذرت خواہانہ رویے بدل گئے اور باجماعت کہا جانے لگا کہ گنڈاپور نے جو کچھ کہا، درست کہا۔
2 دن خاموش رہنے کے بعد علی امین گنڈاپور نے خیبر پختونخوا کے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔ اُس نے کہا ’’تم اپنی پالیسی اپنے گھر رکھو، اپنے صوبے کے عوام کی زندگیاں بچانا میرا فرض ہے، میں افغانستان میں وفد بھیجوں گا اور افغانستان کے ساتھ بیٹھ کر بات کروں گا اور مسٔلہ حل کروں گا‘‘۔ سادہ الفاظ میں گنڈاپور نے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے جس پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 لگتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں مرکز نے صوبوں کو دیگر تمام حقوق تو دیئے مگر خارجہ امور، دفاع اور کرنسی کا حق اپنے پاس رکھا۔ اگر یہ حقوق بھی صوبوں کو دے دیئے جائیں تو پھر مرکز کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور صوبے اپنی الگ شناخت کے ساتھ الگ ممالک میں ڈھل جائیں گے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’گنڈاپور کی جانب سے افغانستان سے خود مذاکرات کا اعلان وفاق پر حملہ ہے۔ کوئی صوبہ کسی ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کر سکتا۔ جس راستے پر گنڈاپور اور اُس کے لوگ چل رہے ہیں وہ ملک کے لیے زہرِ قاتل ہے‘‘۔ بانی پی ٹی آئی نے گنڈاپور کے اِس بیان کو بھی درست قرار دیا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور دفترِ خارجہ کے ہوتے ہوئے صوبائی حکومت کیسے دوسرے ملک سے براہِ راست بات کر سکتی ہے تو عمران خاں نے جواب دیا ’’دفترِ خارجہ کو چھوڑو خیبر پختونخوا دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بلاول بھٹو جب وزیرِ خارجہ تھے تو وہ افغانستان تک نہیں گئے؟ ‘‘۔ ایک طرف تو عمران خاں خود ہی تسلیم کر رہے ہیں کہ بلاول بطور وزیرِخارجہ افغانستان نہیں گئے جبکہ دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں ’’دفترِ خارجہ‘‘ کو چھوڑو۔ گویاوہ دفترِخارجہ کو پرکاہ برابرحیثیت دینے کوبھی تیار نہیں اور خارجہ امور بھی خودہی طے کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ عمران خاں شاید یہ بھول گئے کہ وہ دہشت گردی کا یہ عفریت خود ہی افغانستان سے لائے ہیں۔ اُنہی کی ایما اور فیض حمید کے فیض سے 40 ہزار دہشت گردوں کو ’’اپنے لوگ‘‘ قرار دے کر افغانستان سے پاکستان میں لا کر بسایا گیا جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔ وہ تحریکِ طالبان پاکستان جس کے دہشت گردوں کا پاکستان سے مکمل طور پر صفایا کیا جا چکا تھا اب پھر فعال ہو چکی۔ شنید ہے کہ خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کی بھتہ خوری عروج پر ہے اور خیبر پختونخوا کے وزراء تک بھتہ دے کر جان کی امان پا رہے ہیں۔ اب عمران خاں کا خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا واویلا کچھ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘۔

تبصرے بند ہیں.