وطن عزیز نازک ہی نہیں انتہائی انتشار کے دور سے گزر رہا ہے جو جتنا جانتا وہ اتنا ہی مضطرب ہے۔ عیسوی کیلنڈر 54 ویں سال اگرپینا کا بیٹا نیرو روم کا بادشاہ بن گیا۔ قدیم یونان کی ماہر یعنی تاریخ دان پروفیسر ماریا مائیک کے مطابق نیرو کی سلطنت یورپ سے برطانیہ اور ایشیا سے شام تک تھی۔ وہ یونان کی طرز پر کھیلوں کے میدان سجا کر اپنے عوام کے دل بہلاتا تھا۔ سینیٹ کے ذریعے حکومت چلاتا، اس کی والدہ اگرپینا ایک چالاک، بد کردار اور عیاش عورت تھی۔ نیرو نے جب اپنی ہی والدہ کو قتل کرانے کیلئے قاتل بھیجے تو اس نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہاں خنجر مارو جہاں نیرو کا گناہ پل رہا تھا۔ بہت سے لوگ یہ محاورہ بولتے ہیں ”روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بنسری بجا رہا تھا“۔ دراصل بانسری نہیں LYRE سات سے نو تاروں والا موسیقی کا آلہ جس کے ساتھ خود گانا پڑتا ہے وہ گا رہا تھا۔ دو سے زائد تاریخی محقق کہتے ہیں کہ نیرو نے روم کو آگ خود لگوائی تھی کہ اپنے لیے گولڈن محل بنوا سکے۔ جو بعد میں اس نے بنوایا بھی اور عوام سخت مضطرب تھے کہ روم اور ہماری املاک جل کر راکھ ہو گئیں یہ اپنا محل بنا رہا ہے۔ روم کو آگ کسی دشمن ملک کے حملہ آوروں نے نہیں لگوائی تھی بلکہ آگ لگ گئی، روم جل گیا، نیرو بربط بجا کر گانا گاتا رہا۔ آج ہر محکمہ کا بااختیار نیرو ہے وہ گانا نہیں گا رہا، بربط نہیں بجا رہا بلکہ لوٹ رہا ہے۔ جو وقت فارغ بیٹھتا ہے لوٹنے کی سوچ رہا ہے سوائے کرپشن، بدعنوانی اور بد خواہی کے دوسری سوچ آج کے نیرو کو نماز میں بھی نہیں آتی۔ سینیٹ، عوام نے فوج کی قیادت میں بغاوت کی، نیرو بھاگ نکلا اور 31 سال کی عمر میں خودکشی کر گیا مگر ہماری بیوروکریسی، محکموں کے ہیڈ، چھوٹے سے بڑے کل پرزے، ماتحت عدلیہ اور اب تو ثابت شدہ ہے بعض اعلیٰ عدلیہ کے نامور لوگ، گویا کوئی سرکاری غیر سرکاری نیم سرکاری ادارہ ایسا نہیں جہاں ہر شخص اپنی ذمہ داری کو اختیار سمجھ کر نیرو کا کردار ادا نہ کر رہا ہو۔ اپنا محل بنانے کی خاطر پورے روم کو جلا کر گانا نہ
گا رہا ہو۔ آپ کی کوششیں سوائے بلا وجہ تنقید کرنے والوں کی سوچ اور فہم سے بالاتر ہیں، ناکارہ اور نااہل ریاست دشمن لوگوں کی سرکوبی لاجواب اور قابل تحسین پالیسی ہے۔ وطن عزیز کی تعمیر نو اور قوم کی تعمیر نو بیک وقت مشکل ترین اس لیے بھی ہے کہ معاشرت بھی ازسر نو ترتیب دینا ہو گی۔ ہر محکمہ میں ہر شعبہ میں اکثریت نیرو بیٹھے ہیں لیکن کچھ محکمے بالحاظ وقت اور چلتے لمحے کے اگر کنٹرول نہ ہوئے تو پھر داستان سنانے کا وقت بھی قدرت نہیں دے گی۔ وطن عزیز معاشی بحران کی بدترین دلدل میں ہے اور مالیاتی ادارے، مالیاتی مقدمات کو سننے والی عدالتیں اور ٹریبونلز ایک بوٹی کی خاطر بکرا ہی نہیں قومی خزانے کا پورا ریوڑ ذبح بلکہ جھٹکا کیے دے رہے ہیں۔ کراچی بندرگاہ کسٹم کے حوالے سے کرپشن کی بھی بندرگاہ ہی ہے حالانکہ وہاں کے چیف کلکٹر ایک دیانت دار شخص ہیں، لاہور کلکٹریٹس کے کلکٹر بھی ایسے ہی عمدہ شہرت رکھتے ہیں جبکہ ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس لاہور محترمہ طیبہ کیانی ایک مسلم حقیقی جرأت مند اور اہل ترین شخصیت ہیں جن کی آمد سے سمگلروں میں سراسیمگی تو پھیلی لیکن این ایل سی اور ڈرائی پورٹ مغل پورہ، ایف یو ایئرپورٹ پر چند نیرو پورے ایف بی آر پر بھاری ہیں۔اپنے اپنے سہولت کار، امپورٹر، دلال رکھے ہوئے ہیں ان کے علاوہ سب کو یہ کہہ کر کہ میڈم کلکٹر، میڈم چیف کلکٹر، جناب چیف کلکٹر، محترمہ ڈائریکٹر بہت سخت اور دیانت دار ہیں مگر گارمنٹس، آرٹیفیشل جیولری، متفرق اشیا میں خوفناک مس ڈیکلریشن اور ویلیو ایشن میں کاریگری ہے۔ کسی متفرق اشیا کے کنٹینر کو روک کر دوبارہ چیک کر لیں، 10 سے 25 لاکھ اور بعض 5 کروڑ تک کے ڈیوٹی ٹیکس کا فرق ہو گا۔ سپہ سالار اور وزیراعظم نے سمگلنگ کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی بات کی ہے مگر امپورٹ کے پردے میں مس ڈیکلریشن، جعلی انوائسز کے کھاتے میں قومی خزانے کو اربوں روپے شگاف پڑتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر یہ کام جاری ہے۔ اگر کوئی مقدمہ بن بھی جائے اور اس کی ایڈجوڈکیشن کے بعد معاملہ کسٹم ٹریبونل میں آ جائے، وہاں 15/20 سال بعد جانے والے کو بھی لگے جیسے ابھی ہاتھ دھو کر واپس آیا ہے، وہیں پر بھرتی ہونے والے وہیں پر ریٹائرڈ کہلاتے، وہیں پر وکالت شروع کر دیتے ہیں۔ کم از کم دوران سروس دیگر محکموں کی طرح ان کے سٹاف کی ٹرانسفر تین سال بعد ضرور ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ سب ملازم کرپٹ ہیں اور نہ ہی سارے ممبر کسٹم اپیلٹ ٹریبونل کرپٹ ہیں، دیانتدار لوگ بھی ہیں۔ میرے ایک دوست رانا طاہر خان کمشنر ریٹائرڈ ہوئے ہیں، گوجرانوالہ میں مجسٹریٹ تھے، کہنے لگے کہ مجسٹریٹ، جج یا کسی بھی انصاف پر بیٹھے شخص کو رشوت دینے والا آنے والی نسلوں تک یہ قصہ چھوڑ کر جاتا ہے کہ میں نے اتنے پیسے دئیے تھے مگر بعض عدالتی افسران ریڈر، رجسٹرار کو محفوظ ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ کسی نے دیکھا ہو یا نہ فیصلہ بولتا ہے کہ اس میں چمک ہے۔ میرے ہمدم دیرینہ خواجہ ندیم ریاض سیٹھی وائس پرنسپل گورنمنٹ سیٹلائٹ ٹاؤن یونیورسٹی گوجرانوالہ نے وکالت کے بعد مجھے کہا کہ آپ سول جج کا امتحان دے لو، ایڈیشنل جج ہی بن جاؤ۔ تب تنخواہیں بہت کم تھیں۔ میں نے کہا کہ تنخواہ کم ہے صرف کلرکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے باقی معاملات بھی ہیں۔ میں نے کہا، نہیں کسی اور محکمہ میں کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا، تو وہاں یہ کام نہیں (بدعنوانی)۔ سیٹھی صاحب کو یاد ہو گا، میں نے کہا تھا کہ کہیں اور رشوت لینا بُرائی ہے جیسے کوئی ہیرا منڈی چلا گیا مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف بیچ دینا کسی ممنوعہ رشتہ کے ساتھ بدی کرنا ہے۔ اگلا انصاف کی توقع پر آتا ہے اور کرسی پر بیٹھا شخص بکا پڑا ہو، لعنت ہے ایسی زندگی پر۔ بہرحال حاکمین کرام کسٹم اپیلٹ ٹریبونل میں تو پھر معاملات بہتر ہیں، انکم ٹیکس کی تو بھلی پوچھیں۔ جو مرضی کر لیں جب تک قومی خزانے کو پڑے ہوئے شگاف بند نہیں ہوتے، جب تک گولڈن محل کے متمنی نیرو قانون کے شکنجے میں نہیں آتے، ملک ترقی تو دور کی بات، اس کا سفر جاری نہیں رہ سکتا۔ سپہ سالار چاہے جتنا بھی بہادر، دیانت دار اور محب وطن ہو، وزیر اعظم جتنا مرضی دیانتدار اور منتظم ہو، چیف جسٹس چاہے جتنا بھی منصف اور آئینی ہو، چیئرمین ایف بی آر جتنا مرضی بڑا دیانتدار ہو اگر نیچے جگہ جگہ ہر سیٹ پر نیرو بیٹھے ہوں تو اپنا گولڈن محل بنانے کیلئے جلاتے رہیں گے۔
تبصرے بند ہیں.