(گزشتہ سے پیوستہ)
مقام ِ ابراہیم ؑ کے نواح میں نوافل کی ادائیگی اور دعاؤں کے بعدپیچھے ذرا بائیں ہاتھ "اَ لْسَعی َالصَفّٰا وَلمَر وَۃ” کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روشن بورڈ کی طرف چلے تو میں، عمران اور اس کی امی اکٹھے تھے۔ اہلیہ محترمہ اور راضیہ دونوں اور واجد ملک اور اس کی امی ابھی طواف سے فارغ نہیں ہوئے تھے۔ ہم آگے بڑھ کر صفا پہاڑی کی اونچائی تک پہنچے جہاں صفا پہاڑی کی نشانی کے طور پر اس کا ایک حصہ ایک چمکیلی پر کشش چٹان کی صورت میں ایک دائرہ نما احاطے میں موجود ہے۔ اس کے اوپر ایک بلند و بالا، کشادہ اور خوبصورت گنبد بنا ہوا ہے۔ یہاں سے بائیں ہاتھ خانہ کعبہ کی طرف رُخ کر کے سعی یعنی صفا اور مروہ کے درمیان سات چکروں کا آغاز کیا جاتا ہے۔ صفا اور مروہ وہ تاریخی پہاڑیاں ہیں جن کا ذکر قرآن حکیم میں ان الفاظ میں موجود ہے۔ ” اِنَّاالصَفَا وَلمَرْوَۃَمِنْ شَعَاءِراللہ ” (بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔ جَدِانبیاء حضرت ابراہیمؑ جب اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ ؓ کو اپنے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل ؑ سمیت مکہ کے اس بے آب و گیاہ خشک پتھریلے مقام جہاں دُور دُور تک آبادی کے کوئی نشان نہیں تھے چھوڑ گئے تھے تو ان کے پاس پینے کے لیے پانی نہ بچا اور بچہ (حضرت اسماعیل ؑ) پیاس سے نڈھال ہو کر بِلکنے لگا تو حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں قریب کی پہاڑیوں صفا اور مروہ کی طرف گئیں۔ انہیں بچے کا جسے وہ پیچھے نیچے صحن ِ کعبہ میں چھوڑ آئی تھیں کا بھی خیال تھا کہ اسے کوئی جنگلی جانور نقصان نہ پہنچا دے۔ وہ صفا پہاڑی پر چڑھیں تو بچہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ صفا سے اترتے ہوئے مَروہ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے آگے بڑھیں تو اترائی میں بچہ ان کی نگاہوں سے دور ہوا تو وہ تیزی سے مروہ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے آگے بڑھیں تا کہ بچہ ان کی نگاہوں کے سامنے رہے۔ اس طرح انہوں نے صفا اور مَروہ پہاڑیوں کے درمیان کئی (سات) چکر کاٹے۔ تھک ہا ر کر وہ بچے کے پاس صحنِ کعبہ میں واپس پہنچیں تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جہاں بچہ بِلکتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹا ہوا تھا۔ حضرت ہاجرہ ؓ نے پانی تیزی سے بہتے دیکھا تو ان کی زبان سے زم زم (ٹھہر جا) کے الفاظ نکلے۔ یہ وہی زم زم کا چشمہ ہے جو پچھلے تقریباً چار ہزار سال سے صحنِ کعبہ کے ایک گوشے میں چاہ زم زم کی صورت میں موجود ہے جہاں روزانہ ہزاروں لِٹر یا گیلن پانی اس سے نکالا جاتا ہے جس سے مسجد الحرام، مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی ﷺ مدینہ منورہ میں ہر روز لاکھوں افراد اپنی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ روزانہ ہزاروں زائرین بھی آبِ زم زم کو اپنے ہمراہ دوسرے شہروں اور ملکوں میں بھی لے جاتے ہیں۔ یہ اللہ کریم کا خاص احسان ہے اور اس کی نشانی ہے کہ چاہ زم زم میں پانی کی مقدار میں کچھ کمی یا اس کی روانی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ چاہ زم زم یا زم زم کا کنواں صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم ؑ کے قریب تہہ خانے میں موجود ہے۔ اب اس کا راستہ عمران بھتیجے کی خواہش کہ اسے دیکھنا ہے کے باوجود ہم نہ ڈھونڈ سکے، ورنہ1983ء میں جب مَیں حج پر گیا تھا تو صحنِ کعبہ کے نیچے تہہ خانے میں چاہ زم زم تک رسائی موجود تھی۔ زائرین چاہ زم زم سے ملحقہ ٹونٹیوں سے آبِ زم زم پیا کرتے تھے۔ میں نے خود ایک سے زائد بار وہاں سے آبِ زم زم ہی نہیں پیا بلکہ زم زم کے کنوئیں، اس میں سے پانی نکالنے والی پانی کی موٹروں اور پائپوں کو بھی دیکھا تھا کہ اس وقت اسکی زیارت کی عام اجازت تھی۔
زم زم کے چشمے یا کنوئیں اور اس کے پھوٹنے اور حضرت ہاجرہ ؓ کے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں چکر لگانے کا تذکرہ بڑا خوبصورت اورایمان پرور ہے لیکن واپس سعی کی طرف آتے ہیں۔ صفا کی ذرا سی اونچائی پر کھڑے ہو کر ” اِنَّاالصَفَا وَلمَرْوَۃَمِنْ شَعَاءِراللہ”کے الفاظ پڑھنے کے ساتھ ہم نے سعی کا آغاز کیا۔ صفا کی پہاڑی مسجد الحرام کے تقریباً مشرق میں جنوب مشرقی کونے میں ہے تو مروہ کی پہاڑی مشرق میں ہی شمالی سمت کے کونے میں سمجھی جا سکتی ہے۔ دونوں کے درمیان آنے جانے کے لیے الگ الگ وسیع اور کشادہ دو راستے یا گیلریاں بنی ہوئی ہیں جن میں بیسیوں افراد پہلو بہ پہلو چل سکتے ہیں۔ دونوں کشادہ راستوں یا گیلریوں کی حد بندی کے اندر درمیان میں چھ سات فٹ چوڑا ایک راستہ بھی بنا ہوا ہے جس میں وہیل چیئرز پر بیٹھے افراد وہیل چیئرز کھینچنے والے معاونین کی مدد سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے چکر پورے کرتے ہیں۔ پھر صفا اور مروہ کے درمیان دونوں راستوں کے تقریباً درمیانی حصے میں ایک دوسرے سے کم از کم چالیس، پچاس قدم کے فاصلے پر سبز ٹیوب لائٹس لگی ہوئی ہیں جو صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان اس حصے کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں سے حضرت ہاجرہ ؓ جب پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہی تھیں تو دوڑ کر گزرتی رہیں۔ اب سعی کرتے ہوئے مرد حضرات کو یہاں سے دوڑ کر یا کم از کم دوڑنے کے انداز میں تیز قدموں کے ساتھ گزرنا ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.