بلاول بھٹو زرداری نے بدھ 11ستمبر کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس سے اختلاف ممکن ہی نہیں ہے۔انھوں نے جمہوری اقدار کی بات کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ آج جو کچھ ہم دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں کل کو یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو گا۔ وہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ اصولی طور پر ان کی یہ بات بالکل درست تھی لیکن کیا کریں کہ عمران خان کا شمار انسانوں میں نہیں بلکہ ان کا فین کلب انھیں آسمان سے اترے ہوئے دیوتاؤں میں کرتا ہے اب یہ ہم پاکستانیوں کی قسمت ہے کہ خدائے پاک نے انھیں ہم پر نازل کیا ہے لہٰذا وہ اس قسم کی تمام اخلاقیات اور جمہوری اقدار سے مبرا ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جو کچھ آج ہم دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں وہی کچھ کل ہمارے ساتھ ہو گا تو عرض ہے کہ آپ اگر یہ سب کچھ نہ بھی کریں اور کل کو عمران خان اقتدار میں آ جاتے ہیں تو وہ پھر بھی آپ کے ساتھ یہی کچھ کریں گے بلکہ اس سے بد تر کریں گے۔ 2008سے2018تک پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اور پھر مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی۔ ان دونوں ادوار میں عمران خان یا تحریک انصاف کی قیادت پر کوئی ایک مقدمہ بنا ہو۔ کوئی ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہو۔ کوئی ایک گرفتاری ہوئی ہو حالانکہ اس دوران 2014کے دھرنوں کے درمیان جو واقعات ہوئے اور جس طرح پی ٹی وی کی عمارت پر چڑھائی کی گئی اور ریڈ زون میں 126دن تک جو کچھ ہوتا رہا تو بے شک اس و قت بھی ”گڈ ٹو سی یو“ والے ہی ججز تھے لیکن پھر بھی ایک سو ایک کیس بن سکتے تھے اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں انھیں مہینوں جیل یاترا کرائی جا سکتی تھی لیکن کچھ نہیں ہو اور چینی صدر کے دورے کی منسوخی سے معیشت کو جو نقصان ہوا وہ الگ اور ایک نیوکلیئر پاور کے دار الحکومت کو چار ماہ تک گرڈ لاک لگاکر معیشت کو جو ٹیکہ لگا وہ الگ کہانی ہے۔
کوئی ایک انتقامی کارروائی نہ ہونے کے باوجود بھی 2018میں خان صاحب جب مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو بقول ڈی جی آئی ایس پی آر ان کے پاس جب بھی جا کر معیشت کی بہتری کی بات کرتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ پہلے حزب اختلاف کا مکو ٹھپنا ہے اور پھر انھوں نے اپنے انتقامی ارادوں کو اس طرح عملی جامہ پہنایاکہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، محترمہ مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور، خورشید شاہ،شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، سلمان رفیق، حمزہ شہباز سمیت شایدہی حزب اختلاف کا کوئی لیڈر ہو کہ جسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچایا لیکن ان کے اندر پتا نہیں کیوں انتقام کا جذبہ اس قدر زیادہ تھا کہ وہ کبھی منہ پر ہاتھ پھیر کر نواز شریف کے جیل کے کمرے میں لگے اس ائر کنڈیشن کو اتروانے کی بڑھکیں مارتے تھے کہ جو کبھی میاں صاحب کے کمرے میں لگا ہی نہیں تھا اور کبھی آصف زرداری کو للکارتے ہوئے کہتے تھے کہ ”آصف علی زرداری تم میری نشست (شست) پر ہو“۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ کئی بار اپنے اس ارادے کا اظہار کر چکے تھے کہ اگر پچاس بندوں کو لٹکا دیا جائے تو ملک سے کرپشن بھی ختم ہو جائے اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آ جائے۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جن کے ساتھ ہوئے ان کے لئے انھیں بھلانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ لندن میں بستر مرگ پر تھیں۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ جس کا بدل بندے کی زندگی میں تو کیا بلکہ قیامت تک ممکن نہیں ہوتا لیکن تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے کلثوم نواز صاحبہ کی بیماری کا مذاق اڑایا اور سوشل میڈیا پر پھبتیاں کسی گئی لیکن میاں صاحب کے زندگی کے وہ دن کہ جو ان کا حق تھا کہ وہ انھیں اپنی شریک حیات کے ساتھ گذارتے وہ ایام ان سے چھین لئے گئے جو انھیں دوبارہ نہیں مل سکتے تو کیا وہ یہ سب بھول سکتے ہیں۔ زرداری صاحب بھی تحریک انصاف کے دورمیں کم و بیش ڈھائی سال جیل میں رہے۔ جب رہائی کے بعدکسی صحافی نے ان سے جیل کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جیل تو انھوں نے ساری عمر کاٹی ہے لیکن انھیں افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ 2008میں صدر بنے تو انھوں نے اپنے بزنس کے لئے پاور آف اٹارنی اپنی بہن فریال تالپور کو دیا اور انھوں نے ایک جگہ دستخط کر دیئے جس کی پاداش میں انھیں آدھی رات کو چاند رات میں ہسپتال سے گھسیٹتے ہوئے گرفتار کر کے لے جایا گیا تو کیا اس طرح کی انتقامی کارروائیاں انسان بھلا سکتا ہے۔
بلاول بھٹو کی خدمت میں عرض ہے کہ انھوں نے جو کچھ کہا بار دیگر عرض ہے کہ ان کے کسی ایک لفظ سے بھی اختلاف ممکن نہیں لیکن وہ ایک بار جیل میں جا کر عمران خان سے مل لیں ویسے تو ان کی کہی بات کی کوئی بھی گارنٹی نہیں دیتا لیکن اگر وہ دل رکھنے کے لئے بھی کہہ دیں کہ وہ اگر مستقبل میں اقتدار میں آ گئے تو انتقامی کارروائیاں نہیں کریں گے تو بڑی بات ہو گی لیکن عمران خان تو اس کے بر عکس مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے اپنے ایک بیان میں ستمبر کے مہینے میں حکومت کو گھر بھیج رہے تھے اور ساتھ ہی ریاست کے ارباب اختیار کو حکم بھی جاری کر رہے تھے کہ موجودہ حکومت تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کئے جائیں تاکہ یہ حسینہ واجد کی طرح فرار نہ ہو سکیں۔ اس کے علاوہ وہ ہر اس افسر کو دھمکی دیتے ہیں کہ جو ان کے کیس کی تفتیش کرتا ہے تو بلاول صاحب باتیں آپ کی صحیح ہیں لیکن آپ نے یقینا جمہوریت کی تاریخ پڑھی ہو گی اور جمہوری اقدار کو بھی بخوبی جانتے ہوں گے لیکن آپ عمران خان کو نہیں جانتے وہ انسان نہیں بلکہ ان کا شمار ان کا فین کلب آسمان سے اترے ہوئے دیوتاؤں میں کرتا ہے اور دیوتا انسانی رسم و رواجوں کو نہیں مانتے ان کے اپنے ہی ضابطے ہوتے ہیں جن پر عمل کرتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.