پاکستان کو اس وقت گمبھیر معاشی صورتحال کا سامنا ہے جس میں ملک کی کمتر معاشی ترقی، مہنگائی، بیروزگاری کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے جس میں گزشتہ چند سال میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ادارے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کی شرح جی ڈی پی کے لحاظ سے بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے اب ان کی ادائیگی ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ہمارے ملک کے مانیٹری پالیسی کے تحت ڈالر کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اڑان بھرے اور پاکستانی روپے کو بے توقیر کرتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں 280 روپے کو جا لگا اور سٹیٹ بینک کے مطابق 30 جون 2024ء کو پاکستان پر قرضوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جو 84 ہزار 907 ارب تک پہنچ گیا ہے اور دوسری طرف زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں، ڈالر مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو روک رکھا ہے اس نے ایک بار پھر سے بڑھنا ہے جس صورتحال مزید گمبھیر ہو جائے گی۔ 1948ء سے 1954ء تک ایک ڈالر برابر تھا 3.38روپے، 1955ء میں ڈالر 3.90 روپے، 1956ء سے 1971ء تک 16 سال میں ڈالر 4.75 روپے تک پہنچا، 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ڈالر کی قیمت دگنی یعنی 8.68 روپے ہوگئی، 1982ء سے 1998ء تک ڈالر مسلسل بڑھتا رہا اور 45 روپے تک بڑھ گیا، پرویز مشرف کے دور میں ڈالر 65 روپے کا رہا۔2008ء میں ڈالر 66.80 ، اپریل 2009ء میں 80.25 ، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں 108 ، مارچ 2014ء نواز شریف کے دورِ حکمرانی میں ڈالر کی قیمت 103 روپے تک آ گئی۔ 13 جون 2014ء کو ڈالر مزید گر گیا اور اس کی قیمت 98 روپے ہو گئی۔ 31 دسمبر 2018ء کو ڈالر 140 روپے کا ہو گیا، 30 جون 2019 ء کو 163.76 روپے، 30 جون 2021ء کو 178.47، 5 ستمبر 2023 کو 308روپے اور اب ڈالر 280 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
1960ء کی دہائی میں پاکستانی روپیہ برطانوی کرنسی پائونڈ کے ساتھ منسلک تھا پھر اس کا تعلق توڑ کر امریکی ڈالر سے منسلک کر لیا گیا کہ اس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت ڈالر اور روپے کی قیمتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا اب ان میں تقریباً 200 گنا فرق آ گیا ہے اور ڈالر سامراج نے پاکستانی روپے کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ سرمایہ کار بے یقینی کا شکار ہیں اس سے نہ تو نئی سرمایہ کاری آ رہی ہے بلکہ سرمایہ نکالنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ شرح سود 17.50 فیصد ہو چکی ہے جو کہ پہلے 22 فیصد تک پہنچ چکی تھی جسے سٹیٹ بینک نے حالیہ دنوں میں ہی ڈیڑھ فیصد کم کیا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں اس وقت مہنگائی کی تاریخی لہر آئی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر کم ہونے سے قرض کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران حد سے زائد قرض لے کر روپے کو مستحکم کرتے رہے اور ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کو 20 ارب ڈالر تک لا کر انقلاب کا دعویٰ کرتے رہے، جب کہ آج سے صورتحال ہے کہ بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 75 ارب ڈالرکے قریب ہیں۔
یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ میکرو اکنامک استحکام کے قیام کے لئے ایک سنگین خطرے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر معاشی ترقی، روزگار کے مواقع اور غربت کے انسدادیا اقدامات سب ہی غیر معمولی طور سے متاثر ہوتے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں کا بھاری بوجھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔ شرح تبادلہ پر بھی اس کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ہائی رسک ماحول پیدا ہو گیا ہے جو تجارت اور کاروبار کے لئے غیر موزوںہوتا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں پاکستان کو قرضوں کے سنگین بحران سے گزرنے کا تجربہ ہے جس کے نتیجے میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی تھی اور بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ بہر صورت 2000-2007ء کے درمیانی عرصے میں ملک پر قرضوں کا یہ بوجھ کم ہو کر نصف رہ گیا تھا اور پبلک ڈیٹ 100 فیصد سے کم ہو کر مجموعی قومی پیداوار کا 55 فیصد اور بیرونی قرضے کم ہو کر 66 فیصد سے 28.2 فیصد کی شرح تک آ گئے تھے۔ آئی ایم ایف نے اس واقعہ کو حالیہ برسوں میں پاکستان کے ایک شاندار میکرو اکنامک کارنامے سے تعبیر کیا تھا۔ غیر ملکی اور پبلک قرضوں میں کمی کا یہ فائدہ پاکستان کو اس طرح پہنچا کہ اس کی معاشی ترقی میں تیز رفتارترقی، روزگار کے مواقع کی فراہمی میں اضافہ اور غربت میں تخفیف دیکھنے میں آئی۔
آج پاکستان قرضوں کے حوالے سے تاریخ کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے اور اس نے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے ادائیگیوں کے توازن کے لئے مدد طلب کر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ میکرو اکنامک عدم استحکام کے بیج بوئے جا چکے ہیں۔ آئندہ کئی برسوں تک پاکستانی معیشت کی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور غربت بدستور موجود رہے گی۔ اس مشکل صورتحال سے باہر نکلنے کی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم ” جڑواں خسارے” کو جتنا ممکن ہو کم سے کم رکھیں۔ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفادات کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ اپنے بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد اور 2.5 فیصد تک محدود رکھیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.