جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کو چلانے والے نیٹ ورک کو بہت شدید دھچکا لگا لیکن میڈیا، سوشل میڈیا، خصوصاً عدالتوں کی سہولت کاری کے باعث رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا والی صورتحال اب بھی برقرار ہے۔ نو مئی سمیت فوج میں بغاوت کرانے کے سازشں، کرپشن سکینڈلز اور اینکر ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ کو آئینی دائرہ کار کے اندر رکھنے کے حوالے سے اب کسی بھی وقت پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم اور قانون سازی ہو گی جس کے بعد سارا منظر تبدیل ہو جائے گا۔ دوسری جانب جیل میں بند عمران خان کے پاس آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں اسی لیے ان کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ ان تک باہر کی خبریں پہنچانے اور پیغام رسانی کرنے والے زیادہ تر کارندے قابو آ چکے ہیں۔ اسلام آباد کے جلسے میں انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کے بعد ریاست کی جانب سے کریک ڈاؤن پر عمران خان کا یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ نے دھوکہ دیا، اب اس سے مذاکرات کے دروازے بند کر دئیے ایک لایعنی بات ہے جس سے ان کی مایوسی ظاہر ہو رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ طے کر چکی ہے کہ اقتدار کی سیاست میں پی ٹی آئی کے لیے مستقبل قریب میں کوئی جگہ نہیں، اس سلسلے میں ہر طرح کے غیر ملکی دباؤ کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔ 2022ء سے پاکستان میں جاری بلی چوہے کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ نے کئی فاش غلطیاں کیں جس کے نتیجے میں پراجیکٹ پی ٹی آئی رول بیک ہونے کے بجائے اور پھیل گیا۔ اسی عرصے کے دوران غیر ملکی قوتوں نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے خوب گند گھولا۔ ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔ اس سے پہلے کہ حالات مکمل انارکی کی جانب چلے جاتے اس امر کا ادراک کر لیا گیا کہ اب فیصلہ کن اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔ 8 ستمبر کو اسلام آباد کا جلسہ بانی پی ٹی آئی کے موڈ اور عزائم کی مکمل عکاسی کر گیا۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی خواتین سمیت سیاسی اور صحافتی شخصیات کے خلاف اخلاق باختہ گفتگو ان کے لیڈر بانی پی ٹی آئی کی گائیڈ لائنز کے عین مطابق تھی جس کا انہوں نے ایک روز بعد جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف بھی کر لیا۔ عمران خان نے کہا کہ گنڈا پور نے جو کچھ کہا میں اسکی تائید کرتا ہوں اور جو پارٹی کے جو لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں وہ بزدل ہیں ان کے لیے پی ٹی آئی میں کوئی جگہ نہیں۔ (ویسے یہ اپنی جگہ عجب تماشا ہے کہ دہشت گردی، کرپشن سمیت خطرناک جرائم میں ملوث سزا یافتہ قیدی کو جیل میں ہر روز پریس کانفرنس کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔) اسلام آباد کے جلسے میں گنڈا پور نے فوج پر بطور ادارہ حملے کیے، افغان حکومت کی ترجمانی کی اور ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ تم نے ڈالر لے کر ان کے بچے مروائے اب کہتے ہو وہ دہشت گردی کرا رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ریاست پاکستان کو یہ وارننگ بھی دے دی کہ بانی پی ٹی آئی کو پندرہ روز میں رہا نہ کیا گیا تو جتھے اڈیالہ جیل توڑ کر رہا کرا لیں گے۔ اس جلسے میں طے شدہ منصوبے کے تحت کی جانے والی تقاریر 9مئی کی طرح فوج پر دباؤ ڈالنے کی ایک منظم کوشش تھی لیکن شاید ردعمل کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔ خوش فہمی میں یہی سمجھا جا رہا ہے کہ عدالتیں خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ دیوار چین بن کر پی ٹی آئی کا دفاع کرتی رہے گی، وفاقی نظام میں ایک صوبہ باغیانہ طرز عمل اختیار کر کے نہیں چل سکتا۔ جلسہ ختم ہوتے ہی گنڈا پور کی کسی اہم مقام پر طلبی کی گئی۔ آٹھ گھنٹے تک لاپتا رہنے کے بعد وہ اچانک نمودار ہو کر پشاور چلے گئے۔ باخبر ذرائع یہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ معافی مانگ کر نکلے۔ اسی لیے اس میٹنگ کے حوالے سے فوری طور پر خود کوئی تبصرہ نہیں کیا بلکہ اپنے ذرائع کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ وہ جلسے میں کی جانے والی باتوں پر قائم ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ گنڈا پور اور ان جیسے پی ٹی آئی کے کچھ اور لوگ مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو ان کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ہے بلکہ ہدایات تک لیتے ہیں دوسری طرف انہیں اپنی وزرات اعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے عمران خان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ ملکی صورتحال پر تشویش میں مبتلا سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آنے والے ملے جلے سگنلز کے باعث ملک میں انتشار کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ دیکھا جائے تو اب بھی کچھ مضحکہ خیز چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ جنرل(ر) فیض حمید کے متعلق کبھی یہ خبر چلائی جا رہی ہے کہ ان کا 9 مئی کے واقعات سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا، کبھی بتایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی دور میں ساری کرپشن فیض حمید نے ہی کی تھی۔ اس طرح کی بھونڈی تحریریں بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنی وزرات عظمیٰ کے دوران فیض حمید کو ناپسند کرتے تھے حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں ہر طرح کے معاملات میں ہر پل جنرل(ر) فیض حمید سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہیے کہ فیصل واوڈا اب زیادہ کھل کر فیض حمید، عمران خان اور مراد سعید کو صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث ٹھہرا رہے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو منطقی قانونی انجام پہنچانے میں معاونت فراہم کرتی ہے یا پیٹی بھائی کی محبت میں اس کیس کو بھی متضاد دعوؤں کے ذریعے الجھا کر سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ بہر حال یہ تو طے ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد اگلا اہم ترین مرحلہ عدالتی اصلاحات ہیں۔ ایسا ہو گیا تو میڈیا اور سوشل میڈیا میں موجود فیض نیٹ ورک کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی۔ ایسا نہ ہوا تو بحران سے نکلنے کے آئینی راستے مزید مسدود ہو جائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.