گنڈا پُور نے ایسا کیوں کیا؟

71

یہ معاملات اگست کے مہینے سے چل رہے تھے۔ پی ٹی آئی 22اگست کو اسلام آباد میں جلسہ کرنا چاہتی تھی اور حکومت اس پر راضی نہیں تھی۔ جلسے سے ایک روز پہلے این او سی کینسل کر دیا گیا اور اس کی وجہ امن و امان کی حالت بتائی گئی مگر دوسری طرف یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پی ٹی آئی اس جلسے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نہیں تھی۔ ہم 21اگست کی رات منصور علی خان کے پروگرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے رہنما شوکت بسرا بھی موجود تھے۔ اس سے پہلے پولیٹیکل رپورٹر نے اس پر بریف کیا کہ جلسہ گاہ میں جلسہ کرنے والی کوئی بھی ضرورت کی شے نہیںہے یعنی نہ کرسیاں ، نہ سٹیج اور نہ ہی کوئی سائونڈ سسٹم۔شوکت بسرا نے پوچھا گیا کہ کل دوپہر جلسہ ہے اور ابھی تیاری زیرو، یہ سب کیسے کریں گے، کرسیوں والے یا ڈی جے کا ہی بتا دیں جس سے بکنگ کی ہو تو ان کا جواب تھا کہ میں نہیں بتاوں گا کہ اسے پکڑ لیا جائے گا۔ ان کی بات تسلیم کر لی گئی اور اگلی پیشکش کی گئی کہ اس کا نام اور نمبرواٹس ایپ ہی کر دیں، ہم فون کر کے ٹی وی سکرین پر اعلان کر دیتے ہیں کہ ان کی بکنگ موجود ہے مگر انہوںنے اس ’سہولت ‘ کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا۔ میرا دوٹوک موقف تھا کہ یہ جلسہ نہیں ہو گا ۔ اگلی صبح مزید بریکنگ نیوز تھیں کہ ساڑھے سات بجے جیل کا دروازہ کھلا اور اعظم سواتی سمیت دیگر بانی پی ٹی آئی تک پہنچ گئے۔ انہیں سپریم کورٹ کے باہر مذہبی جماعتوں کے اجتماع کے بارے بریفنگ دی اور ساڑھے نو بجے تک جلسہ منسوخ کرنے کی باقاعدہ پریس کانفرنس کر دی۔
بہت ساروں نے سوال اٹھایا کہ یہ ایمرجنسی ملاقات کیسے ہوگئی۔ اڈیالہ کے دروازے صبح سات بجے کیسے کھول دئیے گئے جو گیارہ بجے بھی گھنٹوں انتظار کے بعد کھلتے ہیں یعنی جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں اور بعد میں عمرا ن خان نے خود تسلیم کیا کہ ان سے جلسہ ملتوی کروانے کا کہا گیا اور انہوں نے یہ بات مان لی۔جلسے کے لئے اگلی تاریخ آٹھ ستمبر کی مقرر ہوئی۔ ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ جب تک نو مئی کی معافی نہیں مانگی جاتی پی ٹی آئی اسلام آباد یا پنجاب کی حدود میں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کرسکتی مگر اس کے باوجود جب دن قریب آتے گئے تو معمول کے کچھ کنٹینر لگانے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد پہنچ گئے اور جلسہ شروع ہو گیا۔ ایک پھڈا یہ ہوا کہ چھبیس نمبر چونگی پر تصادم ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کارکنوں نے پتھراو کیا یا پولیس نے شیلنگ مگر یہ دونوں ہوئے اور بہت سارے زخمی بھی۔ پی ٹی آئی نے ضابطے کی دوسری خلاف ورزی یہ کہ جلسہ سات بجے تک ختم نہ کیا بلکہ رات دیر تک چلائے رکھا یہاں تک کہ علی امین گنڈا پور جن کے بارے سوچا جا رہا تھا کہ نہیںپہنچیں گے وہ بھی سرکاری مشینری کے ساتھ پہنچ گئے۔ یہاں تک کا منظرنامہ بہت معمول کا تھا کہ اگر چھبیس نمبر چونگی والا معاملہ نہ ہوتا اور اس کے ساتھ جلسہ سات، ساڑھے سات ختم کر دیا جاتا تو سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر چلے جاتے ۔ میں نے اب تک جو لکھا ہے اس میں پی ٹی آئی کو ایک بہت بڑا فائدہ مل رہا تھا کہ وہ مقتدر حلقوں سے رعائتیں لینے لگی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس جلسے کو کروانے میں عدلیہ کی بھی بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے مگر بہرحال، جب عمران خان خود تسلیم کر رہے ہوں کہ ان سے جلسہ ملتوی کروایا گیا اور انہوں نے کوئی چیں چوں چاں کئے بغیر ملتوی بھی کر دیا تو لگ رہا تھا کہ رابطے ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد اگلا جلسہ لاہور کا پلان ہو رہا تھا۔ لاہور کے جنرل سیکرٹری حافظ ذیشان رشید بائیس ستمبر کو مینار پاکستان پر جلسے کے لئے درخواست دے چکے تھے اور اگر یہ جلسہ بغیر کسی تنازعے کے ختم ہوجاتا تو اگلے جلسے کی راہ ہموار ہوجاتی۔ اس سے پی ٹی آئی کی پولیٹیکل آکسیجن بحال ہوجاتی، وہ سانس لینے لگتی، حرکت کرنے لگتی۔
یہاں اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ بائیس اگست والا جلسہ ملتوی کروانے پر علیمہ خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈٖیا ٹرولز بھی علی امین گنڈا پور پر برہم تھے اور ایک موقع آیا کہ علیمہ خان اور کے پی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے مگر یہاں اگلا کھیل شروع ہو گیا۔ جیسا میں نے کہا کہ اگلا جلسہ پائپ لائن میں تھا اور پی ٹی آئی ڈیڑھ برس کے بعد ( عمران خان کے پچیس مارچ 2022ء کے جلسے کے بعد) پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے ہی لگی تھی کہ علی امین گنڈا پور نے ایک عجیب وغریب تقریر کر دی۔اس تقریر میں ان کے تین ٹارگٹ تھے۔ پہلا ٹارگٹ فوج تھی جسے انہوں نے فیض حمید کیس کے حوالے سے نشانہ بنایا حالانکہ یہ باتیں جلسے میں کرنے والی ہی نہیں تھیں۔د وسرا ٹارگٹ صحافی تھے اور ان میں وہاں محنت مزدوری کرنے اور ان کی گڈی چڑھانے والے بیٹ رپورٹر ز بھی تھے اور خاتون صحافی بھی جنہیں لفافی تک کہا گیا۔ تیسرا ٹارگٹ شریف فیملی کی لاڈلی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز تھیں۔ علی امین گنڈا پور نہ روٹی کو چوچی کہتے ہیں اور نہ خود اتنے چُوچے ہیں کہ انہیں ان تینوں کے ردعمل کا اندازہ نہ ہوتا۔انہوں نے جوبھی تقریر کی وہ جان بوجھ کر کی اوراس کے کچھ خاص مقاصد تھے۔ گنڈا پور اپنے مقاصد میں کامیاب رہے اور تینوں طرف سے جوابی کارروائیاں شرو ع ہو گئیں۔ سب جانتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور ساری رات کہاں رہے اور کس حال میں رہے۔ انہوں نے حکومت کو بھی مجبور کیا کہ وہ کریک ڈاون کرے اور بدکلامی کی سزا دے ۔اس کے ساتھ ہی جیل میں بیٹھے ہوئے عمران خان بھی میدان میں آ گئے ۔ انہوں نے معافی نہ مانگنے اوروہ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا جو کبھی شروع ہی نہیں ہوئے تھے۔
اب اس پورے منظرنامے کو جمع تفریق میں دیکھیں کہ جب پی ٹی آئی اوپر بیان کئے ہوئے بہت سارے حوالوں میں بہت پلس جا رہی تھی تو گنڈا پور نے ایسی تقریر کیوں کی جس سے سب مائنس ہوگیا۔ 22اگست کے جلسے سے پہلے شرو ع ہونے والے کانفیڈنس بلڈنگ مئیرز 8ستمبر کی رات کو تباہ و برباد کر کے رکھ دئیے گئے۔ ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہوئیں اور ایک پرامن کل کی امید پھر مٹی میں مل گئی۔ آپ سوچیں کہ اس میں فائدہ کس کا تھا۔ کیا عمران خان کا تھا جو مقتدر حلقوں کے کہنے پر جلسے تک ملتوی کر رہے تھے ؟ کیاباہر بیٹھی پی ٹی آئی قیادت یاان کارکنوں کا تھا جن کی ہر مرتبہ پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی تھی مگر اب صورتحال بہتر ہونے لگی تھی ، یا کسی اور کا تھا۔ اس بارے سوچئے، غور کیجئے اور نتیجہ مجھے بھی بتائیے۔

تبصرے بند ہیں.