آپ نے یقینا پنجابی فلمیں دیکھی ہوں گی ان فلموں کی مقبولیت اور کامیابی میں زیادہ کردار ان بڑھکوں کا ہوتا تھا جو سین کے مطابق فلمائی جاتیں اس زمانہ میں ان بڑھکوں میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نمایاں تھے اگر آپ کو یاد ہو تو سلطان راہی کی مولے نوں مولا نہ مارے تے مولے نوں کوئی نہیں مار سکدا… اوئے بار آ… میں تینوں نئیں چھڈاں گا… روک سکو تو روک لو… میں آیا تے پنڈ ہلا دیاں گا… خیر یہ تو فلمی کہانیوں کی بڑھکیں تھیں اب یہ بڑھکیں ہماری سیاست کا بڑا مسئلہ بن گئی ہیں۔ پہلے پردہ سکرین پر ان کو سنا کرتے تھے آج جلسوں میں یہ بڑی اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور ان بڑھکوں کے موجد تو ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی سیاسی تحریک کے آغاز پر ایوب خان کو للکارا تھا پھر اتحادیوں کے شہنشاہ نواب زادہ نصراللہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کے بعد سیاسی بڑھکوں کی ایک روایت بنتی گئی بلکہ یہ روایت باقاعدہ طور پر اس وقت رجسٹرڈ کروا دی جب عمران خان نے تحریک انصاف کی سیاست کا آغاز کیا اور پھر ان کے ہر جلسے میں ان بڑھکوں نے دھمکیوں کی جگہ لے لی اور پھر یہ بڑھکیں تحریک انصاف کا سلوگن بن کر سوشل میڈیا پر آ گئیں اور ہر بات اور ہر معاملے کو ان بڑھکوں کے انداز میں دیکھا اور سنا جانے لگا۔ چلیں اچھا ہوا کہ ہماری سیاست میں ان بڑھکوں کے ذریعے لوگوں کو مزاج بھی ملا کہ یہ صرف بڑھکیں تھیں اب کسی بھی معاملے میں بڑھک مارنا آپ کا سب کا پیارا حق ہے کہ ہم نے کمزور معاشرے میں اپنی مردانگی کا بھی مظاہرہ کرنا ہے۔ بیمار معاشرے میں اور کچھ نہیں تو بڑھک مارنے کا حق تو محفوظ ہے اور یہ ایسی وباء ہے کہ اس پر قانون بھی کچھ نہیں کہتا البتہ جب کوئی سیاست دان عدلیہ کے بارے میں کوئی بڑھک مارتا ہے تو اس کی یہ بڑھک توہین عدالت کے زمرے میں آ جاتی ہے اور حال کی بات کریں تو ہمارے کئی سیاستدان ان بڑھکوں کا شکار ہوئے اور پھر معافی مانگ کر عدالت سے باہر آئے کہ سر وہ تو بڑھک تھی ہمیں بھی تو سیاست میں رہنا ہے۔
سیاست تو اپنی جگہ اب پھر کوئی دوسرے کو بڑھک لگا دیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ بڑھک نے باقاعدہ طور پر ہماری زندگی کو سائن کر لیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی اب ادھوری ہے کہ اگر بڑھک نہ ماری تو میری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں کون ہوں کیا ہوں جیسا ہوں مجھے بڑھک مارنا ہے اور وہ میں مار دیتا ہوں۔ ماضی اور حال اور آنے والے کل میں ہماری بڑھکوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے کوئی یہ بات مانے نہ مانے آج کے دور کے بڑھکوں کے سب سے بڑے موجد عمران خان بانی تحریک انصاف ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز بڑھکوں سے کیا تھا اور پھر اقتدار سے پہلے اقتدار کے بعد اب اڈیالہ جیل سے ان کی بڑھکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جب لیڈر بڑھکیں مارے گا تو پھر ان کی جماعت کہاں پیچھے رہ جانے والوں سے تھی اس نے ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے بڑھک کو اپنی سیاست کا باقاعدہ حصہ بنا لیا اور زمانہ تو دیکھ رہا ہے کہ آج کون ہے جو بڑھک نہیں مار رہا۔ جلسہ ہو، بیان ہو، پریس کانفرنس ہو، میڈیا ٹاک ہو وہاں صرف بڑھکیں زیادہ ماری جاتی ہیں اور پھر خدا کی پناہ بڑھک بھی ایسی کے بعض اوقات عقل بھی دنگ رہ جائے، شرما جائے، سکڑ جائے کہ یار یہ کیا بڑھک مار دی ہے۔ یہاں ایک کے اوپر ایک نئی سے نئی بڑھک نے ہمیں کیا سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یار اگر میں نے بڑھک نہ ماری تو یہ میری تو کوئی سنے گا نہیں کیوں نہ کسی بھی بات پر بڑھک مار دوں ہم عرصہ دراز سے صرف بڑھکیں سنتے آ رہے ہیں۔ ہمیں دوسرے کو دباؤ میں لانے کے لیے بڑھک مارنے کی جو عادت پڑ گئی ہے اس کا ذمہ دار بھی عمران خان ہے جو ہر بات پر بڑھک ضرور مارتا ہے ’’اوئے میں تجھے اندر کر دوں گا… برباد کر دوں گا… جیل میں ڈال دوں گا… فکس کر دوں گا… میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہیں یہ کردوں گا وہ کر دوں گا… اوئے سن لو… اوئے سنو… اگر تم نے یہ کیا تو میں وہ کر دوں گا… کسی کو نہیں چھوڑوں گا کسی کی نہیں سنوں گا نہیں جھکوں گا مر جاؤں گا، غلامی قبول نہیں کروں گا مجھے باہر نکالو… عوام تمہیں کھا جائیں گے… اب چونکہ عمران خان کی اپنی مونچھیں نہیں ہیں اور وہ ہر مونچھ والے چاہے اس کے سامنے رانا ثناء کی مونچھیں تھیں کہ میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر اندر کروں گا یہ ہوگا وہ ہوگا اب بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان تو بڑھکیں مارنے میں ایک فن رکھتا ہے مگر اس کے حواری ایک طرف بڑھک مارتے ہیں تو دوسری طرف اس بڑھک کا دفاع بھی نہیں کر پاتے اور تردید و تصدیق کے چکروں میں پڑتے ہیں۔
ہمارے ایک نوجوان سیاست دان نے بڑی بڑھکیں ماریں اور خاص کر عدلیہ کے چیف کے بارے میں بڑھک ماری۔ عدلیہ نے بلایا موصوف نے معافی مانگی اور پھر اسی عدلیہ کی چوکھٹ پر سجدہ کر دیا… آج رات کو مختلف چینلز پر سیاسی عدالتیں دیکھتے ہیں ان عدالتوں میں لڑائی جھگڑوں کی باتیں تو بعد میں دیکھیں گے یہاں بھی بڑھکیں ہی بڑھکیں ماری جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا ہے پھر ان بڑھکوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک طویل عرصہ کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک جلسہ کیا اس جلسے میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہوگا جس نے اپنی اوقات سے بھی بڑھ کر بڑھکیں نہ ماری ہوں مگر اہم بڑھکیں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی تھیں۔ ان کی ہر بات میں ہر انداز میں نشہ آور بڑھکیں تھیں انہوں نے بے باک بڑھکیں ماریں اور اپنے قائد بانی تحریک انصاف کے انداز اور ان کی بڑھکوں کی یاد دلا دی۔ جہاں انہوں نے سیاستدانوں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ کو کھلی اور آزادانہ طور پر دھمکیاں دیں یہ کسی سیاست دان کا وطیرہ نہیں تھیں البتہ ہم گنڈا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے جلسے میں میڈیم نورجہاں کی یاد دلا دی اور انہوں نے ایک نشئی کے انداز میں نورجہاں کا مشہور زمانہ گیت
مینوں نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے
یوں بھی مجمع میں خواتین ہوں تو آپ جیسے کردار کو یہ بطور وزیراعلیٰ کے آپ ایک بڑے عہدے پر براجمان ہیں کم از کم بار بار اس فقرے کو دہرانا کیا پیغام دے رہے ہیں۔ آپ ہماری بچیوں کو کہ مجھے نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے۔
اور آخری بات…!
بقول وزیردفاع خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے جو گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے اتار دی۔ میرے نزدیک انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی کو سرعام داغدار کرو… یہ شاید ہمارے خاندان میں رواج ہوگا مت دو ایسا پیغام ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کو…
Next Post
تبصرے بند ہیں.