قومی کرکٹ: کیسی بلندی ، کیسی پستی

24

کئی سال پرانی بات ہے کہ برطانیہ میں ایک جعلساز کمپنی نے لوگوں کے پیسے ڈبل ٹرپل کرنے کے لیے اپنی تشہیری مہم شروع کی کہ ہمیں پیسے دیں ہم آپ کو کئی گنا منافع دیں گے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ایک ہدایت یہ کی گئی تھی کہ آپ نے چونکہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت دولتمند ہو جانا ہے جو حکومت کے لیے مشکوک ہو گا کہ آپ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا لہٰذا آپ اپنے بینک اکاؤنٹ اور ٹیکس کے معاملات کو 100 فیصد شفاف رکھیں ہو سکے تو ایک عدد قانونی مشیر کا بھی پہلے ہی انتظام کر لیں جب لوگوںنے ہدایات پڑھیں تو عوام الناس شش عش کر اٹھے کہ یہ تو اتنی ایماندار اور فیئر کمپنی ہے اس کا یقین کرنا چاہیے بعد ازاں یہ کمپنی لوگوں کے اربوں روپے لے کر بھاگ گئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی کرکٹ کے بارے میں پالیسی یہی ہے کہ کرکٹ ٹیم کو ٹھیک کرنے سے پہلے پیشگی شرط یہ ہے کہ پہلے ہم اپنے سٹیڈیم ٹھیک کریں تا کہ ہمارے کھلاڑی جب رنز بنانے اور وکٹیں گرانے کا معجزہ دکھا رہے ہوں تو ہمارے غیر معیاری سٹیڈیم اور سہولیات کے بارے میں انٹرنیشنل کرکٹ کمیونٹی ہمارا مذاق نہ اڑائے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو حکمرانی سے قطع نظر انہوں نے اپنا پورا Tenure دوباتوں پر فوکس کیا تھا یہ سارے اربوں کے میگا پراجیکٹ تھے جن میں شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر اور ہسپتالوں کی عمارتوں کی اپ گریڈیشن۔ اس نے عوام کو سہولت ضرور میسر آئی لیکن اگر ہمارے سٹیڈیم سونے چاندی کے بھی بنا دیئے جائیں تو اس سے کھلاڑیوں کی پیشہ ورانہ کارکردگی کیسے بہتر ہو گی یہ سمجھنا مشکل ہے۔
میکی آرتھر ایک آسٹریلوی کرکٹ کوچ تھے جو 2016ء سے 2019ء تک پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرتے تھے وہ ٹیم کی کارکردگی سے اتنے دلبرداشتہ تھے کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ان کا کہنا تھا کہ میں ایسی ٹیم کو کیسے سکھا سکتا ہوں جو سیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ اس وقت سے اب تک پے در پے کوچ بدلتے رہے مگر ٹیم تشکیل نہیں پا سکی۔
2023ء میں ورلڈ کپ میں پاکستان اپنے 8 گروپ میچوں میں سے 5 ہار گیا اور ابتدائی مرحلے میں ہی ٹورنا منٹ سے آؤٹ ہو گیا۔ اس سال ورلڈ ٹی 20 میں ہم امریکہ جیسی ٹیم سے ہار گئے جو پہلی بار میدان میں اتری تھی اس کے بعد ایک چھوٹی سی آخری نمبر کی ٹیم آئرلینڈ نے بھی پاکستان کو شکست دے دی۔ بنگلہ دیش جس نے آج تک پاکستان سے ٹیسٹ نہیں جیتا تھا انہوں نے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کو وائٹ واش کر دیا۔ اس سے زیادہ ذلت آمیزی شاید ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ کرکٹ ہے جس میں پاکستان 1992ء کا ورلڈ کپ اور 2009ء کا ٹی20 ورلڈ چیمپئن رہ چکا ہے۔
حالیہ شکست پر میکی آرتھر کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں استحکام (stability) نہیں ہے کرکٹ میں کھلاڑیوں کو انفرادی ٹاسک دیا جاتا ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے یہاں کھلاڑی اس کی پابندی نہیں کرتے۔ استحکام اوپر سے آتا ہے جب دو سال میں 4 چیئرمین تبدیل ہوں گے تو استحکام کیسے آئے گا یہی حال کو چنگ کا ہے جو بھی آتا ہے بے بس ہو کر چلا جاتا ہے کھلاڑی اس صورتحال میں انفرادی کھیل کی طرف چلے جاتے ہیں اور اس میں بھی ناکام رہتے ہیں۔
ہماری کرکٹ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی سربراہی پر صدر پاکستان کا صوابدیدی حق تسلیم شدہ ہے لہٰذا چیئرمین کی تعیناتی کے لیے کوئی لازمی شرط نہیں ہے کہ اسے کرکٹ کا پتہ ہے یا نہیں ہے چیئرمین وہی ہو گا جسے صدر اپنے فرمان سے بٹھا دیں گے کرکٹ بورڈ میں وسیع بجٹ اور اربوں روپے کے فنڈز کی وجہ سے یہ عہدہ سیاستدانوں کیلئے ہمیشہ سے بڑا پر کشش رہا ہے۔ اس عہدے کی اہمیت کسی وزارت سے کم نہیں اس لیے ہر بر سر اقتدار پارٹی اپنے من پسند بندے کو اس پر تخت نشین کرتی ہے۔ یہ کرکٹ کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں رمیز راجہ ایسے چیئرمین تھے جو ماہرین کرکٹ میں سے تھے وہ 2021-22 میں چیئرمین بنائے گئے اتفاق کی بات ہے کہ ان کے ہٹائے جانے کے بعد سے اب تک پاکستان نے کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا۔
حالیہ چیئرمین کا معاملہ سب سے جداگانہ ہے وہ ایک فل ٹائم وزیر داخلہ ہیں ملکی حالات اس نہج پر ہیں اور دہشت گردی کی نہ تھمنے والی لہروں کا تقاضا ہے کہ وزیر داخلہ ایک دن میں 36 گھنٹے بھی کام کرے تو پورا نہیں ہوتا لیکن ایسے وزیر داخلہ کو آپ وزارت داخلہ کے متوازی اس سے زیادہ وقت کی متقاضی اسائنمنٹ دیں تو وہ اس کے لیے وقت کہاں سے نکالے گا۔ سٹیڈیم کی تعمیر و آرائش تو کنٹریکٹ پر دی جا سکتی ہے مگر کرکٹ کے سوفٹ ویئریعنی کھلاڑیوں کی کیسے نگہداشت کی جائے۔
جس دن بلوچستان میں 54 بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہل کار شہد کیے گئے اس دن وزیر داخلہ کا بیان یہ تھا کہ دہشت گردی کے لیے کسی خصوصی آپریشن کی ضرورت نہیں یہ تو ایک SHO کی مار ہیں ہمیں ان کے اس غیرسنجیدہ بیان کی وجہ سے کئی دن تک ذہنی کشمکش رہی کہ لاء اینڈ آرڈر کا کیا بنے گا۔ یہی سوچ ہے جو کرکٹ کا نظم و نسق چلانے کے پیچھے کارفرما نظر آتی ہے۔ لہٰذا ہماری کرکٹ میں اصلاح احوال کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔
کھلاڑیوں کی سلیکشن تربیت ڈسپلن اور اس سے متعلق ساری فیصلہ سازی کے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی چیئرمین کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کرکٹ کا ٹیلنٹ گلی محلے کی سطح پر اتنازیادہ ہے مگر ان کی رسائی قومی ٹیم تک نہیں ہے۔ اگرکرکٹ بورڈ کو بھی پی آئی اے کی طرح پرائیویٹائز کر دیا جائے تو شاید کھلاڑیوں کی پرفارمنس میں بہتری کا امکان پیدا ہو جائے۔ یا پھر کم از کم فوری طور پر پارٹ ٹائم چیئرمین کی جگہ کوئی فل ٹائم چیئرمین لایا جائے جو کرکٹ سے واقفیت رکھتا ہو۔
کھیل کو سیاست سے پاک ہونا چاہیے کرکٹ کو سیاست نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کے قومی اداروں کے ساتھ سیاست کرنا ایک بہت بڑی خیانت ہے جب تک کرکٹ کے ڈھانچے میں اوپر سے تبدیلی نہیں آئے گی کرکٹ کا یہی حال رہے گا۔ اس وقت فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کرکٹ اور معیشت میں زیادہ بدتری کہاں ہے۔

تبصرے بند ہیں.