قرض کی پیتے تھے…؟

26

اس وقت نوے فیصد پاکستانیوںمیں اشتعال جوبن پر ہے ہرشخص سڑکوں پر ہے ملک میںایک ہاہاکار مچی ہے دوسری طرف وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری آئے روز کوئی نہ کوئی پھل جڑی چھوڑ کر عوام کو وینٹی لیٹرسے اٹھانے کی خوشخبری سنا رہے ہیں کہ آئی پی پیز سے مذاکرات سے صارفین کو600 ارب تک کا ریلیف مل سکتا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ بھی مختلف آپشنز پر بات ہورہی ہے، ابھی کوئی چیز حتمی نہیں، اس وقت ہمارا فوکس آئی ایم ایف پروگرام ہے، لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے بجلی کی قیمتیں نیچے لانے کے مختلف منصوبوں پر غور کررہے ہیں،وفاقی وزیر فرماتے ہیں احتیاط سے آگے چلیں گے تاکہ بین الاقوامی وعدے پورے ہوسکیں، آئی پی پیز کے معاملات پر جلد ملک خوشخبری سنے گا،کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی معیشت کے معاملے میںخود کفیل نہ ہو،ایٹمی پاکستان مجموعی طورپر 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروض ہے جبکہ ہرپاکستانی شہری 2 لاکھ 95 ہزار روپے کا قرض دار ہے جب ماہانہ کروڑوں میں پڑنے والے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2023-24 کا ا قتصادی سروے پیش کیا تب ملک پر مجموعی قرض 67 ہزار 525 ارب روپے تھا، جو اب بڑھ کر 84 ہزار 907 ارب روپے تک پہنچ گیا ، جولائی 2018 سے مارچ 2022 کے پی ٹی آئی کے پونے 4 سال کے دور حکومت میں قرضوں اور واجبات کی مد میں 23 ہزار 665 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا اور اس وقت تک قرضوں کی مجموعی تعداد 53 ہزار 544 ارب روپے تھے۔2013 سے 2018 کے دوران مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 15ہزار 561ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا اور اس وقت تک ملک پر قرضوں اور واجبات کی مالیت 29 ہزار 879 ارب روپے تھی۔پرویز مشرف کے 9 سالہ دور میں قرضوں میں 3ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور میں قرضوں میں 8ہزار200ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا، ملک پر اب تک قرضوں اور واجبات کی مجموعی تعداد جون 2024 تک ریکارڈ 84 ہزار 907 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے 77 برسوں میں تمام حکومتیں کہتی آرہی ہیں کہ پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے جو سفید جھوٹ ہے ،نااہل اور مفاد پرست حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب پاکستان ترقی وخوشحالی ک’ بجائے بربادی کی تصویر بن گیا ہے آتی جاتی حکومتوں نے صرف ایک ہی کام کیا ہے اور وہ یہ کہ آئی ایم ایف سے قرض لیکراپنی جائیدادیں بنائیں اور قوم کو مقروض کیا2018 میں عمران خان کو لایا گیا وہ کہا کرتے تھے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے اگر میں وزیر اعظم بنا تو آئی ایم ایف کے منہ پر قرضے دے ماروں گا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے میں خودکشی کرلوں؟ سیاستدانوں کی ڈسی قوم نے ان کی بات پر یقین کیا، لیکن وہ آئے بیٹھے اور چلے بھی گئے اور پاکستان کے قیام سے اپنے اقتدار کی تاریخ تک کے ملکی قرضوں سے زیادہ قرض لے کر ملک اورقوم کو مزید مقروض کرگئے،پاکستانی قوم اپنی کمائی سے ٹیکس ادا کرکے ملکی قرضے اتارنے کی کوشش کر رہی ہے، معیشت کے شعبے میں ناکامی نے ملک تباہ کردیا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشی بحران نے عوام کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے،کروڑوں نوجوان بے روز گار ہیں اور40 لاکھ کے قریب ملک ہی چھوڑ گئے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے ،حکومت کی طرف سے توکفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف ایک وزیر یا افسر کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہوتاہے پروٹوکول کے نام پرروزانہ لاکھوں روپیہ پٹرول کی مد میں اڑایا جاتا ہے پولیس امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کے بجائے حکومتی اراکین اور افسران کے پروٹوکول کی ذمے داری نبھانے میں مصروف رہتی ہے کفایت شعاری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ منسٹر بلاک میں جائیں توہر وقت اے سی چل رہے ہوتے ہیں چاہے صاحب بیٹھے ہوں یا نہ بیٹھے ہوں دوسری طرف مانگ مانگ کر ملک چلا رہے ہیں اور ارشد ندیم پر خزانے کے منہ کھل گئے،عوام کو اس نوازشات پر کوئی اعتراض نہیں صرف اعتراض اس بات پر ہے کہ کروڑوں خزانے سے دئیے گئے جبکہ حکمران اپنی جیب سے اس بھی زیادہ دے سکتے تھے ایک وقت تھا ارشد ندیم کے پاس شوزاور جیولین خریدنے کیلئے پیسے نہ تھے تب کسی نے اس کی مدد نہ کی آج اللہ نے اس کی محنت کا پھل دیدیا ہے تو نمبر ٹنگ سیاستدانوں کو بھی ارشد ندیم پر پیار آنے لگا ہے؟ہماری حالت یہ ہے کہ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں، وسائل رکھنے کے باوجود معاشی حالت ایک فقیر سے بھی گئی گزری ہے اس وقت پاکستان کے کروڑوں شہری اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ مہنگی بجلی بلوںکی نذر کرنے پر مجبور ہیں جوان کیلئے عذاب بنا ہوا ہے، حکومت اور اوگرا آئی پی پیز سے سازباز کرکے عوام کو بجلی کے بھاری بل روانہ کررہے ہیں ان کے اپنے مفادات ان کمپنیوں کیساتھ وابستہ ہیں ہر ماہ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ٹیکس ڈالا جاتا ہے مگر کسی بل میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ایک ایک ماہ میں دو دو بار تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اس کمی کو بھی فیول ایڈجسٹمنٹ میں شامل کرکے بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے مگر ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر پیسے ڈال کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے اوگرا اور حکومت اس لوٹ مار میں شامل ہیں، فیول میں کمی ہوئی ہے مگر بجلی کے بلوں میں اسی طرح فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس لگا کر بھیجا جارہا ہے جو عوام کو بیوقوف بناکر لوٹنے کی سازش ہے پاکستان کے آئی پی پیز ایسٹ انڈین کمپنیاں ہیں جو پاکستان کی تباہی کا موجب بن رہی ہیں ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ،حکومت نے بجلی کے ٹیکسوں کی مد میں قوم سے 560ارب روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کیا ہے جبکہ دیگر اشیاء پر جو ٹیکس قوم ادا کررہی ہے اس کا کوئی حساب نہیں،آخر میں بس اتنا ہی کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

تبصرے بند ہیں.