وعدہ انسان کے صاحبِ ارادہ ہونے کا مکمل ثبوت ہے … اور وعدہ خلافی اس کے مکمل آزاد ہونے کا ایک اضافی ثبوت ہے۔ انسان خیر اور شر، گناہ اور ثواب دونوں راستے اختیار کرنے پر قادر ہے، اسی لیے وہ ہر دو جہانوں میں جزا اور سزا دونوں کا سزاوار ہے۔ انسان پر مختاری کی ’’تہمت‘‘ کچھ ایسی عبث بھی نہیں۔ یہاں اس جہان میں کچھ لوگ تو استقامت اختیار کرتے ہیں، جبکہ اکثر اِس جہانِ تغیر میں تحیر کے بجائے تغیر کی زد میں رہتے ہیں۔ وہ قیام پانے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ توفیقِ الٰہی کے، بعد قیام یا تغیر انسان کا اختیار ہے۔ بہرطور انسان باطنی طور پر، کم از کم اِرادہ کرنے کی حد تک، اچھی یا بُری نیت کرنے کی حد تک، اچھے یا بُرے راستے کا انتخاب کرنے کی حد تک آزاد و مختار ہے۔
وعدہ دو آزاد شخصیات کا آپس میں ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ ایک فریق یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس معاوضے کے عوض یہ خدمات مہیا کرے گا، دوسرا فریق یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان خدمات کے عوض طے شدہ معاوضہ دے گا۔ وعدہ کرنے سے پہلے دونوں فریق آزاد تھے، وعدہ کرنے کے بعد دونوں پابند ہو گئے۔ انسانی معاشرے کا قیام بھی انہی وعدوں کے سبب قائم ہے۔ جدید ریاستیں اپنے شہریوں کے ساتھ باہمی وعدوں کی صورت میں قائم ہیں۔ ریاست وعدہ کرتی ہے کہ ان محصولات کے عوض شہریوں کے طے شدہ حقوق کا احترام کیا جائے گا۔ شہری بھی اپنی ریاست سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ریاستی قانون کی پابندی کریں گے۔ اگر ریاستی ڈھانچہ شہریوں کے آئین اور قانون میں دئیے گئے حقوق پامال کرتا ہے، تو شہریوں کے دلوں میں بھی قانون کی پابندی کا عنصر عنقا ہو جاتا ہے۔ مغرب میں ریاست اور شہری دونوں اپنے اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں، نتیجہ ایک خوشحال ریاست!
گھر بھی ایک چھوٹا سا ملک ہوتا ہے، یہ بھی ایک ادارہ ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ایجاب و قبول وعدوں کی ایک دستاویز ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق خاموشی سے ادا ہوتے رہیں تو گھر پُرسکون رہتا ہے، اگر ایک فریق زیادتی کرے تو شور شرابا بپا ہوتا ہے۔ میاں بیوی کی چپقلش بچوں کی شخصیت سے توازن چھین لیتی ہے، بچے عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں اور باہر کا رخ کر لیتے ہیں۔ شکستہ گھروں
سے نکلنے والے بچے متعدد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے، ان کی سوچیں منتشر رہتی ہیں اور وہ کم ہی معاشرے کے فعال کارکن بن پاتے ہیں۔ دو افراد کی آپس میں وعدہ خلافی کی سزا معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ بحر و بر میں فساد کا پھیل جانا، انسان کے سبب ہے۔ انسان کے باطن میں فساد برپا ہوتا ہے اور ظاہر کی دنیا میں بہت دُور تک پھیل جاتا ہے۔ باطن میں فساد طغیٰ ہے۔ نفس کی طغیانی باطن میں فساد برپا کرتی ہے۔ نفس کی ایک طغیانی فسق کی صورت میں ظاہر ہوتی۔ فسق … آسمانی ہدایت کے مقابلے میں اپنی ذہنی تعبیر کو معتبر ماننا ہے۔ اللہ نے آسمان سے ہدایت نازل کی، کہ سود حرام ہے، جوا حرام ہے، شراب نوشی منع ہے، بے راہ روی اور بے حیائی کے کام، اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ، منع ہیں، رحم کے رشتوں کو قطع کرنا منع ہے … اس ہدایت کے مقابلے میں اپنی ذہنی توجیہات کی مدد سے کوئی درمیائی راستہ نکالنا فسق کے زمرے میں آتا ہے۔
انسانی کی دینی اور دنیاوی زندگی کا لباس وعدوں کی تاروں سے بُنا ہوا ہے۔ دین اور دنیا میں وعدوں کی پاسداری کرنے والا انسان ہی معتبر ٹھہرتا ہے۔ اپنے وعدے کا پاس کرنا انسان کے ذمہ دار ہونے کی نشانی ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے اندر احساسِ ذمہ داری سے لگایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ’’بے شک انسان سے اُس کے وعدوں کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔ حدیثِ پاک ہے: ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جو امانت کی حفاظت نہیں کرتا اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جو وعدہ وفا نہیں کرتا‘‘۔ گویا دیندار وہ ہے جو اپنے وعدے پورے کرے اور بندہ ِ مومن وہ ہے امانت کی پاسداری کرے۔ اُس شخص کو دین دار ہرگز نہیں سمجھا جائے گا جو ٹیکس چوری کرتا ہے، بجلی چوری کرتا ہے، سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے کر اپنے ناجائز کام کراتا ہے، خواہ وہ اپنی وضع قطع سے دینی حلیے میں ہو اور مسجدوں میں حاضر باش دکھائی دے۔ ملکی قوانین کی پابندی کرنا بحیثیتِ شہری اپنی ریاست کے ساتھ کیے گئے وعدے کی پابندی کرنا ہے۔ اگرچہ گناہ اور جرم میں فرق ہے، گناہ دینی حکم کی خلاف ورزی ہے، اور جرم حکومت کے حکم کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر کسی ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہاں کے ملکی قوانین مسلمان ہی بنا رہے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے، اور وہ قوانین قرآن و سنت سے متصادم بھی نہیں ہیں، تو ایسی صورت میں جرم اور گناہ میں کچھ فرق نہیں رہ جاتا ہے، کیونکہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی سے دوسرے مسلمان بھائیوں کو ایذا پہنچتی ہے، اور مسلمان کو تکلیف میں مبتلا کرنا گناہ ہے۔ مثلاًٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی سے راہگیروں کا حق متاثر ہوتا ہے، اور راہگیروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا گناہ ہے۔ اس طرح یہ ایک جرم بھی ہے اور گناہ بھی۔ اسی طرح وقت کی پابندی نہ کرنا بھی وعدہ خلافی کی شکل ہے۔ اس وعدہ خلافی کا خمیازہ بھی اپنے بھائی بندوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ بھی گناہ والی بات ہے۔ دفتر میں تاخیر سے آنے سے سائلین کا وقت ضائع ہوتا ہے، بظاہر یہ ایک جرم ہے، لیکن یہ ایک گناہ بھی ہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: ’’کلمہ طیب ایک عہد ہے‘‘۔ وعدوں کے باب میں یہ ایک بہت گہری بات ہے، اس پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ پاک کلمہ پڑھنے سے انسان اپنے فکر و عمل میں پاکیزہ رہنے کا وعدہ کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی شہادت دے کر ہم دینِ اسلام کے تمام قوانین، یعنی شریعتِ حقہ کی پابندی کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہماری ظاہری اور باطنی زندگی دینِ حق کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزرے گی۔ اب جھوٹ بولنے والا، وعدہ خلافی کرنے والا، ملاوٹ کرنے والا، دھوکا دینے والا، ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والا، رشتوں کو قطع کرنے والا، بڑوں کا ادب نہ کرنے والا، چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ نہ کرنے والا، دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اپنی قامتِ حیثیت پر ناز کرنے سے پہلے خود کو وعدوں کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔
توبہ بھی ایک وعدہ ہوتا ہے، آئندہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ … اور توبہ شکنی، وعدہ شکنی ہے۔ مخلوق کے ساتھ وعدہ شکنی اگر مخلوق کے دل پر شکن ڈال سکتی ہے تو سوچنا چاہے کہ … استغفراللہ من کل ذنبٍ و اتوب الیہ! توبہ شکنی کی تلافی پھر نئے سرے سے توبہ ہی ہوتی ہے … اور اس کے علاوہ کچھ نہیں!!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.