ترقی یافتہ ممالک کی مانند اب ہمارے ہاں بھی انسانی حقوق کا واویلا شروع ہو چکا ہے۔ میں نے واویلا کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ یہاں کیسے انسانی حقوق یہاں تو رعایا رہتی ہے اور گنتی کے کچھ بادشاہ رہتے ہیں بادشاہ بدلتے رہتے ہیں جب کہ رعایا وہی رہتی ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کی حالت نہیں بدلی۔ بدلے بھی کیسے یہاں کوئی اس ملک سے مخلص ہی نہیں ہے۔ یہاں ایک آئین بھی ہے جس کو بڑی مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مقدس پن بھی صرف کتابوں اور نعروں میں ہی ہے، کیونکہ ہمارے آئین پر عملدرآمد صرف اپنی ضرورتوں کے مطابق ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کوئی قانون اس وقت سب سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے جب اس میں لچک ہو یعنی اسے اپنی مرضی کے مطابق جدھر مرضی موڑ لیا جائے، اس اعتبار سے ہمارا آئین بڑا زرخیز ہے ۔ ہمارے ہاں ایسا ہی آئین عمل پذیر ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں آئین ایک شخص کی ضروریات کے تابع ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی خواہشات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جب دل کیا اس پر اثر انداز ہو گئے۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آئین صرف حکمران کے لئے ہے اور حکمران کا آئین عوام تو کوئی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ حکمرانوں کی ضروریات اور ہوتی ہیں، عوام کی ضروریات اور۔
آئین قانون کا سر چشمہ ہوتا ہے لیکن جب آئین حکمرانوں کی ضروریات اور مطالبات کا کھلونا بن جائے تو پھر قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں ملک میں قانون کی حکمرانی کی بجائے حکمرانوںکے قانون کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے اور انسان یا عوام رعایا بن جاتے ہیں۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان گزشتہ دو تین سال سے ملک چھوڑ کر بیرونی ملک جا رہے ہیں، یہاں انہیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔ یقین مانیں ہر شخص ایک دوسرے کو کہہ رہا ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہے یہاں سے باہر نکلو۔ یہ صورتحال بڑی کربناک ہے، آج ہم نظریۂ پاکستان سے انحراف، عہد شکنی، بد عہدی اور ناشکری کی وجہ سے جس سزا اور عذاب میں مبتلا ہو چکے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد انتہائی علالت میں زیارت ریذیڈنسی میں اپنے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے بسترِ مرگ پر اپنی حیاتِ فانی کے آخری ایام میں کہا تھا۔ قومیں نیک نیتی، دیانتداری، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں، منافقت، زبردستی اور خود پسندی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔ یہ کتنے فکر انگیز ، بصیرت افروز اور تاریخ ساز الفاظ ہیں۔ آج ہم سب کچھ بھول کر اپنی ذات سے آگے سوچ نہیں رہے ایک دوسرے کو غدار قرار دے رہے ہیں، مطمعِ نظر اقتدار حاصل کرنا ہے جیسے بھی میسر آ جائے۔ آئین و قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
میں یومِ آزادی پر ایک شیئر ہوئی پوسٹ دیکھ رہا تھا جس میں 1965ء میں اخبارات میں شائع ہونے والے اور ریڈیو پر تواتر سے نشر ہونے والے اشتہار کا ذکر تھا جس کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں اتری تھیں اور اس اشتہار کے مطابق انہیں غدار قرار دے دیا گیا اور لکھا گیا عبد الغفارخان اور محترمہ فاطمہ جناح مل کر پختونستان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر پرزور تحریک چلائی گئی تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح انگریزوں کی ایجنٹ ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جنرل ضیاء الحق 11 سال تک اس ملک پر آئین کو معطل کر کے برسرِ اقتدار رہے وہ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتے رہے۔جنرل پرویز مشرف کا قصہ بھی بڑا عجیب ہے، وہ ایک سرکاری نوکری کی وردی کو اپنی کھال قرار دیتے رہے اور آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے باوجود آرمی ہاؤس خالی نہیں کیا، بس جب سب نے یہاں سے نکالا تو تب ہی خالی کیا ۔ جنرل پرویز کیانی طبعاً شریف آدمی تھے۔ آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی انہوں نے آرمی ہاؤس کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھا۔ چکلالہ کے ایک عام سے فوجی گھر کے باہر آرمی ہاؤس کی تختی لگائی اور جا بسے۔ جنرل کیانی نے پہلی بار غیر جانبداری کی روایت ڈالی اور انتخابات کے موقع پر اپنے پیش رو کی مرضی کے خلاف الیکشن میں دھاندلی سے انکار کر دیا اور مشرف کی ق لیگ ہار گئی۔ جنرل کیانی کا تب یہ انکار تمام اخبارات میں بھی چھپ گیا جب انتخابات سے دو دن قبل جی ایچ کیو کی طرف سے سب کو غیر جانبدار رہنے کا حکم موصول ہوا۔ جس کے نتیجے میں عوام نے جس کو ووٹ دیا وہ جیت گیا۔ انتخابات کے منصفانہ نتائج پر عوام کو تعجب ہوا کیا ایسا ممکن ہے کہ انتخابات کے نتائج ووٹرز کے ووٹوں کے مطابق نکلیں۔ جنرل کیانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کی عزت بچائی اور عوام کی نظروں میں اس کا وقار بحال کیا۔ یہ فرض انہوں نے ایک ایسے شخص کو فوج سے رخصت کر کے سرانجام دیا جو فوج اور عوام کے درمیان دیوارِ نفرت بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ آئے، اب جنرل عاصم منیر آرمی چیف ہیں۔ یہ سب ہمارے محافظ ہیں اپنے سکھ کو برباد کر کے ہمارے دکھ سمیٹتے ہیں۔
عوام فوج کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور فوجی عوام سے کہتے ہیں کہ تم سکھ کی نیند سو جاؤ ہم جاگ رہے ہیں۔ عوام اور فوج کا رشتہ بھی بڑا انمول لیلیٰ مجنوں والا ہے، جن کی ایک دوسرے کے لئے محبت لازوال ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، عوام وقتی طور پر فوج سے خائف ہوتے ہیں لیکن یہ کمزور سی ناراضی پلک جھپکتے میں ختم ہو جاتی ہے ، جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہر محاذ پر جوان عوام کو راحتیں پہنچانے کے لئے پر عزم ہیں جیسے اس میں کبھی کوئی دراڑ ہی نہیں ہوئی تھی۔یہ ہو بھی کیوں نہ۔۔۔۔ پاکستانی قوم نے عمر بھر فوج کے لئے بہت قربانی دی ہے ،پیٹ پر پتھر باندھ کر، اسی طرح مادرِ ملت کے لئے فوجی جوانوں کی قربانیاں آئے روز کا معمول ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جاری رہے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.