دبائو کِس حدتک کارگر ؟

18

پی ڈی ایم اقتدار سے لیکر اب تک حکومت اور پی ٹی آئی میں تنائو ہے اور یہ تنائو مستقبل قریب میں بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ اضافہ ہو سکتا ہے البتہ محمود اچکزئی کی صورت میں بات چیت کاموہو م سا امکان موجودہے وہ کام جو ماہر قانون دانوں کے اعلیٰ دماغ نہ کر سکیں وہ ایک سرد وگرم چشیدہ سیاستدان کی وجہ سے ممکن ہوسکتاہے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ قانون دان قیادت عہدے حاصل کرنے جیسی کامیابیوں کے لیے توپی ٹی آئی کوبطو بیساکھی استعمال کرتے ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانے کی نتیجہ خیز حکمتِ عملی نہیں بنا تے علاوہ ازیں طاقتور حلقوں سے قریبی تعلق نہ ہونے کی بناپر عمران خان کی بار بار بات چیت کی پیشکش کے حوالے سے سنجیدہ پیش رفت میں بھی ناکام ہیں اسلام آباد جلسے نے ثابت کردیا ہے کہ جماعت میں سنجیدہ فکر سے زیادہ جذباتی اور ٹکرائو پر یقین رکھنے والوں کو اولیت حاصل ہے جس سے سنجیدہ لوگ بددلی کا شکارہیں اوروہ غیرمتحرک ہوتے جارہے ہیںیہ صورتحال قانون دانوں کی سیاسی ناکامی اور بے بسی کی اہم وجہ ہے شیرافضل مروت اور امین گنڈاپور جیسے لوگ کارکنوں کو گرمانے کی حدتک تو ٹھیک ہیں لیکن اُن کا یہ طرزِ عمل ملک کی ایک اہم جماعت کو سیاسی محاذ پر کمزور کررہاہے جس جماعت کے رہنمائوں میں رسہ کشی عروج پرہو اورسنجیدہ اور جذباتی لوگ منقسم وبرسرِ پیکار، ایسی جماعت کو کسی حریف کی ضرورت ہی نہیں وہ اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہے نیز چاہے جتنی بھی مقبول ہوجائے اُسے اقتدار کے مراکز کی طرف سے پذیرائی نہیں مِل سکتی ۔
آٹھ فروری سے لیکر اب تک بانی پی ٹی آئی متعدد بار احتجاج کی کال دے چکے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ قانون دان قیادت اور جذباتی قیادت کی منقسم سوچ کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہے کے پی کے کے علاوہ ملک بھر میں ایسے حالات نہیں بن سکے(وجہ وفاق مخالف سوچ ہے) جس سے حکومت سنجیدہ نوعیت کا دبائو محسوس کرے یا مقتدرہ کو ایسا احساس دلایا جاسکے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی مجبوری خیال کرے بلکہ ہر بار حکومتی اقدامات اور انتقامی کارروائیوں کو اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیکر جماعت کے ذمہ داران نے سرخرو ہونے کی کوشش کی یہ کوئی معقول وجہ نہیں کیونکہ متحارب فریق کبھی آسانیاں فراہم نہیں کرتاایسی توقع رکھنا بچگانہ سوچ ہے تحریکیں حکومتی وسائل کے بل بوتے پر کامیابی سے ہمکنارنہیں ہوتیں بلکہ قیادت کی یکسوئی اور کارکنوں کی طاقت سے ہوتی ہیں پی ٹی آئی کارکنوں کے حوالے سے تو بہت اہم جماعت ہے مگر قیادت میں یکسوئی کا فقدان ہے جو کسی زوردار تحریک کی راہ میں رکاوٹ ہے اب تو حالات یہاں تک آگئے ہیں کہ کچھ اہم رہنماعہدوں سے استعفے دینے پر مجبور ہیں عمر ایوب اِس کی تازہ مثال ہے یہ اندرونی خلفشار اِس جماعت سے کارکنوں کو بددل کر سکتا ہے ۔
اگر وسائل کے حوالے سے دیکھا جائے تو کے پی کے حکومت ہونے کی وجہ سے اِس جماعت کے پاس وسائل کی کمی نہیں بلکہ فراوانی ہے مگر وسائل کی یہ فراوانی بھی بانی پی ٹی آئی کی مشکلات کم کرنے اور اِس جماعت کے کارکنوں کو منظم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی البتہ امین گنڈاپورکا دھڑا وسائل کی بدولت ہی جماعت میں نمایاں ہے وسائل سے لطف اندوز ہونے اورسیاسی مسائل سے بچنے کے لیے ہی وہ علاقائی سوچ کی حکمتِ عملی پرعمل پیرا ہیں اُن کی کوشش ہے کہ اُنھیں پی ٹی آئی سے زیادہ کے پی کے کا سٹیک ہولڈر تصور کیا جائے جہاں حالات اِس نہج پر ہوں وہاں وفاق پرست قوتیں کمزور ہوتی ہیں کے پی کے میں کافی عرصہ سے ایسی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جو وفاق کی بات کرنے سے زیادہ صوبائی تعصب کے خول میں بندہوں اب یہ پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی پر منحصر ہے کہ وہ بطور وفاقی جماعت اپنا تشخص برقرار رکھے اور صرف ایک صوبے کی نمائندہ جماعت ہونے کالیبل نہ لگنے دے ظاہرہے اِس کے لیے طریقہ کار بنانا قانون دان قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ قانون دان قیادت کو بانی کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود کارکن قبول کرنے میں پس و پیش کا شکارہیں ۔
پی ٹی آئی کی قانون دان قیادت کئی ماہ سے جلسے کی اجازت لینے اوراِس حوالے سے تیاریاں کرنے میں مصروف ہے لیکن ہربار حکومتی سختیوں سے گھبراکر عین موقع پراسی جماعت کا کوئی اہم رہنما منسوخی کا اعلان کردیتا جس سے جماعت کی مقبولیت پر سوال اُٹھنے لگے اب آخر کارگزشتہ روز آٹھ ستمبر کو جلسہ ہوگیا جس میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوئے مگر منتظمین اجازت نامے کی شرائط کی پاسداری میں ناکام رہے کسی اور کی بات کیا کریں خود وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی بروقت جلسہ میں شریک نہ ہو سکے بلکہ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے پنڈال میں پہنچے اوراُن کی آمد سے قبل ہی پی ٹی آئی کے جذباتی کارکنوں اور پولیس کے حفاظتی دستوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہو چکی تھی کارکنوں کے پتھرائو کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے جس سے دونوں اطراف کے کئی لوگ زخمی ہو گئے ایسے واقعات تلخیاںکم نہیں کرتے بلکہ بڑھا سکتے ہیں اور پی ٹی آئی کو ایک امن پسند جماعت سے زیادہ مقتدرہ کی مخالف ہونے کا تاثر گہرا کرتے ہیں حالانکہ آٹھ ستمبر کے جلسہ کا مقصد ہی یہ ثابت کرنا تھا کہ نہ صرف آج بھی پی ٹی آئی کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے بلکہ اِس کے کارکن نو مئی کے واقعات کے خوف کا حصار توڑچکے ہیں مگر مشروط جلسے میں بھرپور عوامی شرکت تلخیوں کے نئے روزن کھولتی محسوس ہوتی ہے جس پر اگردبائو کِس حدتک کارگرکاجائزہ لیا جائے تو صورتحال پی ٹی آئی قیادت کے حق میں محسوس نہیں ہوتی اسلام آباد کے مضافات سنگجانی میں پاور شو کے بعد اگلا جلسہ لاہور میں کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا آزادانہ جلسے کااجازت نامہ حاصل ہوپائے گا یا نہیں کیونکہ اسلام آباد جلسہ کے حوالہ سے قانون دان قیادت کرائی گئی یقین دہانیوں پر پورا اُترنے میں ناکام رہی ہے واقفانِ حال کی محافل میں اِس امرکا بھی جائزہ لیاجا رہاہے کہ تمام ممکنہ وسائل جھونکنے کے باوجود حکومت اور مقتدرہ کو پی ٹی آئی دبائو میں لینے جیساہدف تو حاصل نہیں کر سکی توبانی کی مشکلات بڑھانے اور جذباتی کارکنوں کومظاہروں میں جھونکنے کے اور کیا مقاصدہوسکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلام آباد کا جلسہ جماعتی قیادت میں نئی رسہ کشی کی بنیاد بن جائے گا؟۔

تبصرے بند ہیں.