عمران خان، گولڈ سمتھ اور اسرائیل

38

دی ٹائمز آف اسرائیل میں اینوربا شیرووا کے عمران خان کے اسرائیل، پاکستان تعلقات قائم کر سکنے کے بارے میں خیالات آج کل ہمارے ہاں زیر بحث ہیں۔ اینور ایک تحقیقاتی تجزیہ نگار اور بلاگر ہیں۔ اخبار میں اپنے بلاگ میں انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں عمران خان کے گولڈ سمتھ خاندان کے ساتھ جمائما کے حوالے سے تعلقات، جمائما کے بھائی زک گولڈ سمتھ کے ساتھ ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قائم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے دور حکمرانی میں (2018-22) اسرائیل کو اس حوالے سے پیغام بھی دے چکے ہیں۔ بلاگر نے لکھا ہے کہ عمران خان کو آزاد کر دینا چاہئے تاکہ وہ سیاسی سرگرمیاں سرانجام دے سکیں۔
ہمارے سیاست دانوں نے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد عمران خان کے یہودی ایجنٹ ہونے کے بارے میں بہت بلند آہنگ میں باتیں کہنا شروع کر دی ہیں حالانکہ اینور نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے سوائے اس کے کہ عمران خان نے اسرائیل کے ساتھ پیغام رسانی کی تھی وگرنہ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان سے کچھ اہم شخصیات، سرکاری طور پر اسرائیل گئی تھیں۔ اس دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سعودی عرب جو شہر عظیم بسانے کی کاوشیں کر رہا ہے اس کی تعمیر میں اسرائیلی/ یہودی فرموں کی شمولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اگر گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس اسرائیل پر حملہ آور نہ ہوتا اور جواباً اسرائیل فلسطینیوں پر جنگ مسلط نہ کرتا تو اب تک شاید سعودی عرب سمیت کئی اور عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوتے۔ اسرائیل نہ صرف خطے کی ایک عظیم فوجی طاقت کے طور پر اپنا آپ منوا چکا ہے بلکہ اس نے عربوں کی فوجی قوت بھی پاش پاش کر دی ہے۔ مصر، عراق، شام قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ کسی عرب ملک میں دم خم نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو للکار سکے یا اس کے منصوبوں کی راہ میں مزاحم ہو سکے۔ عربوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ امریکی پنجے خطے میں گڑے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر امریکہ چھایا ہوا ہے اور اسرائیل کی حفاظت اور طرفداری کرنا امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ٹرانسپورٹ طیارے بھر بھر کر اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیل لے جا رہے ہیں تاکہ حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جا سکے۔ یہ امریکی بم ہیں جو اسرائیل کو توپوں اور جنگی جہازوں سے بدلتے ہیں اور فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں۔ دیگر مغربی اقوام بشمول برطانیہ اور فرانس بھی اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل نے عربوں کی فکری قوت ’’اخوان المسلمون‘‘ بھی پاش پاش کر دی ہے۔ پہلے اس کے مقابل بعث ازم کو کھڑا کیا گیا۔ مصر، شام اور عراق میں بعثی حکمرانوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے عربوں کی فکری قوت، اخوان کا خاتمہ کرنے کی کاوشیں کیں، انہیں صرف سیاسی میدان سے ہی نہیں بلکہ عملاً میدان عمل سے ہی ختم کرنے کی کاوشیں کی گئیں۔ اخوان کی عورتوں اور جوانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عرب فکری طور پر اور نہ ہی عسکری طور پر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تسلیم کرنے کی نہ صرف باتیں ہو رہی ہیں بلکہ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سعودی عرب عالم اسلام میں انتہائی محترم سمجھا جاتا ہے۔ خادمین حریمین شریفین ہونے کے باعث سعودی حکمران مسلمانوں کے لیے قابل احترام سمجھے جاتے ہیں لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت سعودی معاشرے میں جدید خطوط پر تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جس سے سعودی عرب کا اسلامی تشخص مجروح ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے سعودی تعلقات بھی ولی عہد کی سعودی عرب کو جدید بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔
اسرائیل 1948ء سے لے کر ہنوز 2024ء تک، زرعی ملک سے ایک انتہائی ایڈوانس، ٹیکنالوجی والا ملک بن چکا ہے اس نے یورپ، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکہ سے ہجرت کر کے آنے والے یہودیوں کو بھی اپنے دامن میں سمو لیا ہے۔ اس کے علاوہ ماضی قریب میں سابقہ سوویت یونین اور ایتھوپیا سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو بھی یہاں لا بسایا ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی ایام سے ہی ریاست اسرائیل کا نہ صرف فلسطینی عربوں کے ساتھ جھگڑا چل رہا ہے بلکہ ہمسایہ عرب ریاستوں کے ساتھ بھی معاملات دشمنی والے ہی رہے ہیں۔ اپنے ہمسایوں کے ساتھ 1948ئ، 1967ء اور 1973ء میں بھرپور جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1956ء میں مصر پر حملہ اور لبنان کے ساتھ 1982ء اور 2006ء میں ہونے والی جنگیں اس کے علاوہ ہیں۔ اسرائیل ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ عالمی معاشیات پر یہودی، صہیونی گرفت، اسلحہ سازی، فلم میکنگ اینڈ ڈسٹری بیوشن اور دیگر معاملات جو عالمی تجارت، سیاست اور سفارت کاری پر اثر انداز ہوتے ہیں، صہیونیوں کی گرفت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے قیام میں روتھ چائلڈ خاندان کا کردار، یہودی بستیاں بسانے، یہودیوں کو دنیا کے کونے کھدروں سے نکال کر اسرائیل لانے اور انہیں بسانے میں روتھ چائلڈ کا کردار ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ہیکل سلیمانی کی تیسری دفعہ تعمیر کے لیے روتھ چائلڈ متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی صیہونی تحریک کے پرچم تلے ہی ریاست اسرائیل قائم ہوئی تھی اور وہی عالمی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ گولڈ سمتھ بھی روتھ چائلڈ خاندان کا حصہ ہے۔ عمران خان اس کے داماد رہے ہیں اور زک سمتھ کے ساتھ وہ اب بھی برادرانہ انداز میں ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کی میئرشپ کے لیے عمران خان نے صادق خان کے مقابلے میں زک گولڈ سمتھ کی الیکشن مہم چلائی تھی اس لیے اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قائم کرنے یا کرانے کے لیے عمران خان حتمی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انتہائی اہم بات: یہ بلاگ ایسے ہی نہیں لکھا اور چھاپا گیا ہے۔
پاکستان کو 7 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پیکیج ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا منتظر ہے۔ سٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کے بعد آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ تین دفعہ میٹنگز کر چکا ہے لیکن پاکستان کا معاملہ منظوری کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اسے کہیں، کسی سطح پر، عمران خان کی رہائی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے؟ کیونکہ گولڈ سمتھ خاندان اور اسرائیل کی عمران خان میں دلچسپی عیاں ہے، انہیں عمران خان کی آزادی درکار ہے۔

تبصرے بند ہیں.