کچھ کہانیاں کرداروں کے مر جانے کے بعد لکھی جائیں تو مشکوک ہو جاتی ہیں۔ عہدوں سے سبکدوشی کے بعد بھی متعلقہ کردار منحرف ہو جاتے ہیں، اس لیے انہی دنوں کی باتیں سورجوں کے ڈھلنے سے پہلے لکھ کر اِک بوجھ سا کندھوں سے اتارے دیتا ہوں۔
ملک کی بڑی عدالت کی سفید رنگ عمارت کے ایک اہم ذمہ دار کے کمرے میں وقت حاضر کے وہ سیکرٹری طلب کیے گئے تھے جو پاکستان کے تخلیق کاروں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور فنون لطیفہ سے وابستہ محنت کشوں کے فن پاروں کو ایک لمحہ میں پرکھنے اور ان کی کارکردگی کو احسن یا ناقص قرار دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ یہ بھی طاقت رکھتے تھے کہ آرٹس کونسلوں، لٹریری اداروں، ادبی سرپنچوں اور اکادمیوں کی سفارشات کو مسترد کر کے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کی فہرست کو پاک کر دیں یا پھر بغیر کسی سفارش کسی ایسے فنکار کا نام ڈال دیں جس نے ایک آدھ کتاب لکھی ہو، چند ایک مشاعروں میں قصیدے سنائے ہوں یا پھر وہ مزاحمتی ادب کی مخبری کی سند رکھتا ہو۔
چائے سے پہلے بڑے صاحب تشریف لائے اور انہوں نے سیکرٹری صاحب کو حکمیہ انداز میں فرمایا کہ ہمارے برخوردار کا نام بھی ’’ایوارڈ‘‘ کی فہرست میں شامل کر لیں یعنی اشارہ میری جانب تھا۔ سیکرٹری چونکہ اس وقت خود اسی در کا بھکاری تھا اس لیے انہوں نے فوری سی وی مانگ لی اور پھر میری طرف سے حیران کن اور غیر متوقع ردعمل پر چونک بھی گئے۔
پھر اس برخوردار نے ایوارڈ کی قیمت پر دل کی بھڑاس نکالنے کو ترجیح دی اور گویا ہوئے ’’میں دو درجن مقبول کتابیں تصنیف کرنے کے بعد وہ ایوارڈ کیوں قبول کروں جو ایک سو دس صفحات پر مشتمل بارہ غزلوں اور چالیس آزاد نظموں کی کتاب کے خالق کو صرف اس لیے دیا گیا کہ وہ محکمہ انکم ٹیکس کا افسر تھا اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی ٹیکس بچاؤ مہم میں ان کا سہولت کار۔ یہ ایوارڈ جب گھڑی فروشوں اور با اثر گھرانے کے ڈریس ڈیزائنر کو دیا جائے گا تو پھر تخلیق کار اسے لیتے ہوئے شرمائیں گے۔
اعلیٰ عدلیہ کے باوقار منصف میری گفتگو سنتے رہے اور ان کی آنکھوں میں میرے لیے تحسین بھری چمک اور بڑھتی گئی مگر دوسری طرف سیکرٹری صاحب کا رنگ پہلے پیلا اور پھر نیلا ہوتا گیا مگر میں نے اپنی گفتگو جاری رکھی، سر آپ گزشتہ برس کی فہرست برائے ایوارڈ یافتگان منگوا لیں تو آپ کو صدارتی ایوارڈ کے نام کے حروف سے بھی بدبو آنے لگے گی۔ میں ادب کا طالب علم ہوں اور ان سیکڑوں تخلیق کاروں کو جانتا ہوں جن کی تخلیقات پاکستان کے لیے فخر کا باعث ہیں مگر چونکہ وہ ادیب ابھی مصر کے بازار میں نہیں آئے اس لیے انہیں نائب صدارتی ایوارڈ کے بھی لائق نہیں سمجھا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہاں پر عمر بھر کی قلمی مشقت کو تولنے والے خود کرپشن کیسز میں نامزد ملزم ہوتے ہیں۔
میری گفتگو سن کر صرف اتنا کہا گیا کہ ’’یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘ اور منصف اعلیٰ نے مجھے گلے سے لگا کر سیکرٹری کے چہرے پر پھیلے پھیکے پن کو مزید دھندلا دیا۔
کاش یہ ایوارڈ تخلیقی کارکردگی پر دئیے جاتے تو لینے والا ان پر فخر کرتا مگر اب صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ایک دھبہ بن چکا ہے جن کو ملتا ہے وہ خود بھی یوں شرمندہ نظر آتا ہے جیسے اس کی کوئی ویڈیو لیک ہو گئی ہو۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.