مائوزے تنگ اور سپہ سالار پاکستان

78

بہت شور کرتے تھے کہ جی 9 مئی میں اگر کوئی حقیقت ہے واقعی جرم سرزد ہوا ہے تو ابھی تک سزا کیوں نہیں ہوئی۔ 9 مئی کے واقعات دراصل وطن عزیز کے بدترین واقعات تھے جو بھارت بھی نہیں سوچ سکتا تھا وہ سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک شعبے کے آپے سے باہر ذمہ دار نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار کی حرص و حوس کی خاطر کر دکھایا۔ فوج ایک مربوط ادارہ ہے کوئی اس حد تک اس میں شگاف ڈال سکتا ہے اس کا یقین اس لیے ممکن نہ تھا کہ پہلے اتنے بڑے عہدے پر جو کہ آرمی چیف کی دوڑ میں ہو وہ اس قدر قانون، اخلاق اور ملکی مفاد کے برعکس عمل ایک کھلنڈرے بد زبان سیاسی فرد کی وجہ سے کرے گا امید نہ تھی۔ اس وقت پاک فوج کی کمان انتہائی زیرک، دیانتدار اور کمٹڈ سپہ سالار کے ہاتھ میں ہے، وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو کل کو انصاف اور قانون کے تقاضوں کے برعکس ہو لہٰذا پورے ثبوت اکٹھے کرنے کے بعد ادارے نے جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا۔ اب ذرا یوتھیے تجزیہ کاروں کی نذر ایک واقعہ۔ انقلاب چین کے بعد دو کام سرفہرست تھے۔ نمبر 1 انقلاب کے مخالفین کا سدباب اور دوسرا منشیات فروشوں کو سزائے موت دینا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے سر کاٹے گئے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چیئرمین مائوزے تنگ کی کچن کیبنٹ کا درجہ رکھنے والے کمیونسٹ پارٹی کے راہنما کے گھر سے بھی منشیات کی اچھی خاصی مقدار پکڑی گئی، مقدمہ قائم ہوا۔ چیئرمین مائوزے تنگ کے پاس اس کی فائل آئی۔ شام سے صبح تک سگار پیتے اور سوچتے رہے کہ اس کو سزائے موت دے دی تو پارٹی کے اندر بددلی پیدا نہ ہو جائے۔ اس کے حامی بغاوت ہی نہ کر دیں یا کم از کم انقلاب کے سرکردگان کا جوش ماند نہ پڑ جائے پھر خیال آیا اور اپنے آپ کے ساتھ مکالمہ کیا کہ اگر اس کو سزائے موت نہ دی گئی تو پھر ان لوگوں کو جو سزا کے مستحق ٹھہرے ان کو صرف اس لیے سزا دی کہ وہ میرے واقف، دوست اور پارٹی میں اہم نہیں تھے لہٰذا خودکلامی سے چیئرمین مائوزے تنگ باہر نکلے اور سزا کا فیصلہ کر کے فائل آگے کر دی۔ خود اطمینان سے سو گئے۔ فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے یہ ہوا کہ چائنہ میں گھر گھر جس کی جیب یا حلق میں بھی منشیات تھیں اُگل دیں۔ لہٰذا ادارے نے یہ فیصلہ پورے مکالمے کے بعد اور ادارے کی بقا کی خاطر کیا ہے تا کہ سڑکوں پر ناچنے والے سوشل میڈیا پر بکواس کرنے والے سمجھ جائیں کہ اگر فیض حمید گرفتار ہو سکتا ہے تو اقتدار کی فلم میں کام کرنے والے اور وزیراعظم وہ بھی سلیکٹڈ کا کردار ادا کرنے والے کی کیا اوقات ہے؟بھارت کی ایک فلم ’’میں آزاد ہوں‘‘ میں امیتابھ بچن نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس میں امیتابھ بچن ایک بے روزگار کنگلہ مگر ہینڈسم لانگ کوٹ، پینٹ بوٹ پہنے ٹرین سے اترتا ہے۔ جیب میں پیسہ نہیں اور پیٹ میں روٹی نہیں۔ جب ریلوے سٹیشن سے باہر آتا ہے تو سامنے سڑک کے درمیان پڑے ہوئے سیب پر نظر پڑتی ہے۔ ادھر ادھر دیکھ کر اس کو اٹھا کر کھانا شروع کر دیتا ہے۔ برابر میں میڈیا سے وابستہ ایک لڑکی اور ایک آدمی کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کو تلاش ہوتی ہے ایک کریکٹر کی۔ ہوتا ہے یہ کہ اخبار میں سنسنی چھاپنے کے لیے ایک خبر چھاپتے ہیں کہ ’’آزاد‘‘ نامی شخص فلاں تاریخ کو بطور احتجاج عوامی حقوق مانگ کے سلسلہ میں فلاں ٹاور سے چھلانگ لگا کر جان قربان کر دے گا۔ اخبار کی رپورٹر کی نظر ہینڈسم امیتابھ بچن پر پڑتی ہے اس سے بات کرتی ہے کہ تم آزاد بن جائو تو ہم تمہیں فلاں فلاں عہدے اور سہولتیں دے دیں گے۔ اب ہینڈسم کنگلے کو کیا چاہئے وہ فوراً مان جاتا ہے۔ اب سیاسی اسٹیبلشمنٹ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اخباروں میں دھڑا دھڑ خبریں چھپنا شروع ہو جاتی ہیں کہ آزاد مل گیا، آزاد کو تقریر کا فن اور ہینڈسم وہ ہے ہی اور آواز کی گرج بھی لہٰذا بات بن جاتی ہے۔ اب جب آزاد کو مکھ منتری وزیر کا عہدہ مل جاتا ہے تو لانے والے اس کو یاد دلاتے ہیں کہ تم آزاد نہیں بلکہ سیاسی سڑک چھاپ تھے تم وہ نہیں ہو جو بن رہے ہو۔ کلٹ بھی ایک فلمی کردار سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اور مؤدبانہ بنتا ہی وہ ہے جو حقیقت میں مکار ہو، مودب نہ ہو۔ سمجھنے والے بھی سمجھتے ہیں اس کے مؤدبانہ ہونے میں کیا مکاری ہے۔ حقائق کا سامنا بڑے بڑوں کا پتہ پانی کر دیتا ہے اور ہمارے ہینڈسم کا ہو چکا ہے۔تاریخ میں متعدد واقعات ہیں کہ سیاست دانوں نے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کیا یعنی پارٹی میں رہ کر دوسری پارٹی کے لیے یا اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کیا۔ مصطفی کھر کہتے ہیں شیخ رشید ان سے ظہور الٰہی کی مخبری کے پیسے لیتا تھا۔ شیخ رشید تو خیر کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ مولانا کوثر نیازی محترمہ نصرت بھٹو کے ساتھ تھے اور اس اجازت کے ساتھ کہ جب تک ہم آپ اپنی اسٹیبلشمنٹ یا ضیاء حکومت خلاف بات نہیں کریں گے جیالے ہم پر اعتماد نہیں کریں گے۔ یہی صورتحال اب پی ٹی آئی کی قیادت کی ہے۔ علی امین گنڈاپور کی زبان شیخ رشید سے بھی زیادہ گندی ہے وہ اس لیے محترمہ مریم نواز کے خلاف گند بک رہا ہے کہ جیل میں 8 کمروں میں موج کرنے والا کلٹ یقین رکھے کہ گنڈاپور خوب کام کر رہا ہے حالانکہ گنڈا، لہسن اور ادرک پور بھی ہوتا تو اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ یہ وہی کردار ادا کر رہا ہے جو مولانا کوثر نیازی اور شیخ رشید کرتے رہے۔ بانی پی ٹی آئی نے آزادی چوک مینار پاکستان کے جلسے میں تقریر کے شروع میں کہا تھا ’’ماضی کے سیاست دانو‘‘ آج خود ماضی بن گیا۔یقین کریں یہ امیتابھ بچن کی اداکاری سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ جیل میں مطمئن ہے کہ محفوظ اور مزے میں ہے۔ مائوزے تنگ سے کہیں بڑے فیصلے موجودہ سپہ سالار کو کرنا پڑے ہیں ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے پاکستان کے مضبوط ترین ادارے کو بکھرنے سے بچایا اور اس کو دوبارہ وہی طاقت اور مقام دیا جو تھا مگر ان سب اقدامات کی کامیابی کے بعد بھی میری رائے اور سوچ ہی نہیں پہچان رہی ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف رہا ہوں اب آج کل مداخلت نہیں اپنے پیش روئوں کا پھیلایا ہوا گند سمیٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سپہ سالار نے اپنے تدبر بہادری اور اقدامات سے ثابت کیا کہ فوج کا خود کار نظام کسی بھی خطرے کی صورت حرکت میں آتا ہے اور پھر کوئی راستے میں آئے چاہے فیض ہو یا کلٹ قانون کی عملداری ضرور ہوا کرتی ہے، لہٰذا اب اداکار کو حقائق کا سامنا ہے۔ چیئرمین مائوزے تنگ جیسی جرأت اور کمٹمنٹ وطن عزیز کے سپہ سالار میں دیکھتے چلئے۔ جو حالیہ انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہیں ان 26/8 یاد نہیں اور ویسے بھی لکھ کے دے رہا ہوں ان انتخابات میں بھی میاں نوازشریف کے خلاف ہی دھاندلی ہوئی جس کی ذمہ داری کا تعین تاریخ کرے گی۔

تبصرے بند ہیں.