لیڈر شپ کا بڑا امتحان

19

نعرے، ڈھول باجے، اپنے لیڈر کے حق میں بڑے بیانات، اعلانات اور بازاروں میں ہونے والے تاجر اکٹھ انتخابات کا حسن ہوتے ہیں اور یہی جذبے انتخابی ماحول کو گرماتے ہیں اور جوش و ولولوںمیں کچھ بہت جذباتی تو کچھ اپنے مخالفین کو صفر کرتے ہوئے انتخابات سے قبل ہی اپنی جیت کا اعلان بھی کر جاتے ہیں۔ ہونا بھی چاہئے یہ گروپ لیڈر، امیدوار اور ووٹر سے لے کر ان کے حمایتیوں تک کو حق ہے کہ پہلے بیلٹ باکس میں پہلے ووٹ سے آخری ووٹ پڑنے تک وہ ماحول چلتا رہے۔ اب دیکھا یہ گیا ہے کہ لاہور چیمبر میں ہونے والے انتخابات میں جوں جوں وقت قریب آتا جا رہا ہے سخت رویوں، ذاتیات اور کردار پر بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ٹریڈ سیاست کو یہ زیب نہیں دیتا۔ آپ بڑے سلجھی کلاس کے لوگ ہیں۔ معاشرے میں آپ کو ایک بلند مقام پر رکھا جاتا ہے، ملکی معیشت کا ریموٹ کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہے آپ حکومت کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ میرے نزدیک یہ عوام سیاستدانوں کے مقابلے میں آپ کا زیادہ احترام کرتے ہیں، اختلافات کو اختلافات کی حد تک رکھیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ لاہور چیمبر کے انتخابات ایک تو تین سالوں کے بعد ہو رہے ہیں اور تیس ای سی ممبران کا انتخاب تین سال کے بعد ہونے جا رہا ہے۔ اس بار نامزدگیوں کی بجائے الیکشن کا راستہ اپنایا گیا ہے اس لیے زیادہ گہما گہمی اور جوش دکھائی دے رہا ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق پولنگ ڈے کے اوپر بدمزگی اور لڑائی جھگڑوں کی باتیں بھی تجارتی حلقوں میں سنائی دے رہی ہیں۔
چھ گروپس کے درمیان ہونے والے اس انتخابی معرکے میں اصل کردار الیکشن کمیشن کا بنتا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل سب کو یکجا کرکے افہام و تفہیم کی راہ نکالے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہارنے والے کبھی اپنی ہار تسلیم نہیں کریں گے۔ اس موقع پر پہلے ہی سے قواعد و ضوابط طے کر لئے جائیں تو یہ ایک نہیں سب کے فائدے کی بات ہوگی۔ اب تو انتخابات پر ہر دو سال بعد ہونے ہیں اگر صدارت کی مدت کا قانون تبدیل نہیں ہو جاتا جس کے تحت فیڈریشن اور چیمبرز کی باڈیز کو دو سال کی مدت دی گئی تھی پھر نگران سیٹ اپ آیا توسابق وفاقی وزیرتجارت نوید قمر نے اسمبلی سے بل پاس کروا لیا کہ دو سال کی بجائے صدارت کی مدت ایک سال ہوگی، بل پاس ہو کر جب سابق صدر عارف علوی کی میز پر گیا تو انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کو دوبارہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے حوالے کر دیا ۔ اب میرے ذرائع کے مطابق یہ بل دوبارہ پیش کیا جانے والا ہے۔ جو ان ہونے والے انتخابات سے پہلے تو نہیں آتانظرنہیں آرہا لہٰذا اس بار بھی دو سالہ مدت کے قانون پر ہی عمل ہوگا۔ بات ہو رہی تھی کہ اب تو ہر دو سال بعد تیس سیٹوں کا میدان سجنا ہے اور یہ بھی طے ہے الیکشن میں ہارنے والے گروپس اپنے موجودہ سیٹ اپ میں رہتے ہوئے آگے چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا خدا حافظ کہہ کر وہ پرانے گروپس سے ہاتھ ملا لیتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے یہاں وہ کچھ بھی ممکن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ناممکن ہے پاکستان میں چند ایک مثالوں کے علاوہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے ہم سب ہمیشہ ایک ہی رہیں گے۔ یہ اتحاد پھر ٹوٹیں گے پھر بنیں گے کہ آج ٹریڈ سیاست میں نوجوان قیادت کے کردار کو نمایاں اہمیت ملی ہے کہ یہ دور ہی نوجوانوں کا ہے مگر ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تجربہ کار لیڈروں کے زیر سایہ ابھی مزید تجربات حاصل کریں کہ پرانی قیادتیں ہی نئی قیادتوں کو بناتی ہیں اور ان کے عشروں کے تجربات آپ کے لیے بڑی رہنمائی کا جہاں سبب بنتے ہیں وہاں وہ اچھے مستقبل کی راہیں بھی اپنا جاتے ہیں۔
اللہ کرے کہ 23اور 24ستمبر کو ہونے والے لاہور چیمبر کے انتخابات بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ طے پا جائیں۔ ہارنے والے خندہ پیشانی سے اپنی شکست کو تسلیم کریں گے تو پھر اچھی روایات قائم ہوں گی۔ اس بات کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے علم میں کچھ باتیں ایسی اور مصدقہ اطلاعات ہیں۔ ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ میرے نزدیک انتخابات کسی کے بھی ہوں وہ امن، دوستی اور محبت کا پیغام مانگتے ہیں۔ جوش و جذبات کو کنٹرول کرنا ہی انسان کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ ہر جنگ جیتنے کے لیے لڑی جاتی ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ جیت جائے مگر ایک نے تو ہارنا ہے اور ہارنے والے کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جیتنے والے کو مبارکباد دے اور ایک ایسی مثال قائم کرے جو تاجر برادری کے لیے ایک تاریخ بن جائے۔ تاریخ کسی نے باہر سے آ کر نہیں لکھنی یہ آپ ہی نے مرتب کرنی ہے تاکہ آنے والی نوجوان نسل تاجر برادری میں سر فخر سے اٹھا کر چل سکے۔ تاجر کلاس الزامات والی کلاس نہیں ہے اتنے بڑے انتخابات میں تو تاجر برادری کا سب سے بڑا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر اپنے اولین فرائض کے تحت نہایت دانش مندی اور تمام انتخابی اختلافات سے ہٹ کر اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ یہ ذمہ داری انتخاب میں ان تمام گروپس پر بھی بنتی ہے جو اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اس انتخاب کو اور خوبصورت بنائیں۔ یہ جتنا خوبصورت ہوگا اس سے تاجروں کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔
بھارت کا ایک مشہور زمانہ گانا ہے:
سو بار جنم لیں گے سو بار فنا ہوں گے
اے جان تمنا ہم تم نہ جدا ہوں گے
تاجر چاہیں ادھر یا ادھر کے ہیں ان کا تعلق ان کی ہمدردیاں چاہے کسی گروپ کے ساتھ ہوں وہ ہیں تو ایک اور ایک ہونے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات کے بعد انتخابی خلشیں، رنجشیں، انتخابی محاذ آرائیاں، الزامات ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے پھر سب نے اکٹھے ہونا ہے۔ بات شادیوں کی ہو، تہواروں کی ہو یا کسی اور تقریب کا انعقاد بہانہ تو ہے ملاقات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سیاست یا سیاسی انتخابات نہیں ہیں آپ بڑے خوبصورت لوگ اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں لہٰذا انتخابی معرکے کو اس کی حد تک ہی رکھیں گزشتہ دو ماہ سے جاری یہ کھیل 24ستمبر کی رات کو ختم ہو جائے گا۔ رہے نام اللہ کا…
اور آخری بات…!
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
میرے نزدیک اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انتخابات کے موقع پر نہ صرف بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا بلکہ دونوں طرف سے پیغام محبت یہی ہونا چاہئے کہ یہ اختلافات کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کا وقت ہے۔ انتخابات ہوتے رہیں گے کل آپ نے پھر اکٹھے ہونا ہے۔

تبصرے بند ہیں.