بے خوف فلسطینی… بے حس مسلمان

46

یہ کیسے ستم کی داستاں میری رگ میں سرایت کر گئی کہ مجھے پھر مرثیہ لکھنا پڑا ہے۔ نواحِ قبلہ اول میں ظلمت کیا کہانی بن رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید انبیا ء کی سرزمینِ خاص کی قسمت میں بس خوں ریزی لکھی ہوئی ہے۔ مجھے اس خاک کی تاریخ کو معلوم کرنا ہے۔ مجھے یہ سوچنا ہے قتل و غارت کے ستارے کیوں اسی کو جنگ کا میداں بناتے ہیں۔ نسل کشی کے 331 دن مکمل ہو گئے ہیں۔صرف 6 لاشیں ملی تھیں مغوی اسرائیلیوں کی کسی غار سے اور کیسے محض 6 لاشوں پر 5 لاکھ سے زائد اسرائیلیوں نے پورا تل ابیب بند کر کے سیز فائر کا مطالبہ کر دیا ہے اور ہمارے تو 40,000 سے زائد فلسطینیوں کی لاشیں جن کو صہیونیوں نے بے دردی سے قتل کر دیا، جس میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی شامل ہے۔ وہ معصوم بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے شاید دنیا میں چند ہی سانسیں لی ہوں گی اور وہ بھی بارود بھری فضا میں۔ ہم کتنی بار اپنی حکومتوں سے سیز فائر میں اپنے کردار کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آئے ہیں؟ فلسطین میں قتل ہوتے بچوں، عورتوں، جوانوں، بزرگوں کی تصویریں اور بچ جانے والوں کی آہیں عالمی ضمیر نامی چیز پر احساس کے کچوکے لگا رہی ہیں۔ اظہار کے سب طریقے اور تاسف کے سب انداز اپنے معنی کھو رہے ہیں۔ المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ اپنے دامن میں ظلم کی نئی داستان رقم کیے بے بس کھڑی ہے۔ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اسرائیل اب تک 70 فیصد سے زائد غزہ تباہ کر چکا ہے۔ 2.3 ملین لوگ، جس میں 47 فیصد بچے شامل ہیں، متاثر ہوئے ہیں۔ غزہ کی 60 فیصد رہائشی عمارتیں، 80 فیصد بازار اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے مراکز، 65 فیصد فصلیں اور اس سے ملحق زمینیں، 65 فیصد سڑکیں اور 85 فیصد تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور صرف 36 میں سے 17 ہسپتال ہیں جو جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل دن بہ دن اپنے قدم بیت المقدس کی طرف بڑھاتا جا رہا ہے۔ بات غیرت مسلم پر آ گئی ہے، ہاں اگر جاگ جائے تو! جاگنے کیلئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ جب اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن غفیر نے کہا کہ ہم مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کی عبادت گاہ بنائیں گے۔ پھر ایک اور اسرائیلی سیاستدان موشے فیگلن نے بیان داغا کہ ہم مسجد اقصیٰ میں اپنا تیسرا ٹیمپل بنانے سے زیادہ دور نہیں۔ البتہ مذمت ضرور آئی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے، مگر آپ کا پاکستان یہاں بھی خاموش رہا۔ شاید سمجھتا ہے کہ نیتن یاہو کو دہشت گرد قرار دے کر فرض کفایہ ادا کر دیا ہے۔ یہی وجہ حیرت ہے کہ نیکی کے کام کو بھی پوچھ کر اور سوال کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور وہ بھی شاید زبردستی۔ اب تو الفاظ کے ہتھیار بھی پھینک دئیے جائیں، مذمتوں اور قراردادوں سے سیاہ ہونے والے کاغذوں کی کشتیاں بنا لی جائیں۔ کیونکہ فلسطینی اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور شاید اکیلے ہی لڑتے رہیں گے۔ فلسطینیوں کی واحد امید 52 اسلامی ممالک ہیں یا شاید تھے، کیونکہ 41 ممالک پر مشتمل ایک فوج جن کے سپہ سالار پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف ہیں، وہ صرف یمن کے باغی گروہ کو شکست دینے کیلئے ہی بنی تھی یا صلاحیت ہی اتنی تھی، کیونکہ وہ نیتن یاہو کا تو ہاتھ نہ کاٹ سکے، نہ روک سکے ہیں، اب تک جو وہ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اب الاقصیٰ کی طرف بھی آہستہ آہستہ بڑھا رہا ہے۔ ابھی تو یہ سارے الفاظ سے دھمکیاں لگا رہے ہیں لیکن مسلم دنیا کی خاموشی نے اگر انہیں اور شہ دے دی اور کوئی عملی قدم اٹھا لیا تو یہ سارے نامی مسلمان اپنی نسلوں کو منہ دکھانے کے قابل ہوں گے اور نہ خدا کو جواب دینے کے۔ میرے الفاظ کا اختتام تو شاید کہیں نہ کہیں ہو ہی جائے مگر کون جانے اس ظلم کا اختتام کب اور کیسے لکھا ہے؟

تبصرے بند ہیں.