کبھی تو دلِ زار اُنہیں پیار آئے گا!

39

دوپہر کے یہی کوئی بارہ ساڑھے بارہ بجے کا وقت ہو گا میں اپنے کمرے میں بیٹھا حسن نثار کی طرح پکا سا منہ بنا کر ماہنامہ ’’جڑی بوٹی‘‘ کے لیے ملکی سیاسی حالات پر ایک پھڑکتا اور بھڑکتا ہوا کالم لکھنے کے لیے سوچ بچار کر رہا تھا۔ گو مجھے کالم لکھتے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے مگر مجھے پوری امید ہے کہ جس طرح میں کالموں میں مولا جٹ کے تیز دھار گنڈاسے کی طرح اپنے قلم سے بڑے بڑوں کے گھاٹے اُتارتا ہوں بہت جلد ایک بڑے اور اہم کالم نگار کے طور پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر میری ایک شناخت ہو گی جس کے بعد ملک کے مقتدر حلقے اہم قومی امور کے سلسلے میںمجھ سے رہنمائی کے لیے گاہے گاہے ضرور رابطہ کیا کریں گے۔ اسی مد و جذر میں ڈوبا میں اپنے اگلے کالم کے لیے کسی مناسب موضوع کا انتخاب کر رہا تھا کہ ایک دم سے میری بیگم صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں اور مجھے ایک ہزار روپے کے نوٹ کے ساتھ ایک لسٹ پکڑاتے ہوئے بازار سے سودا سلف لانے کو کہا۔ میں نے کالم کے لیے سوچ بچار کے دوران بیگم کے اس طرح اور اچانک مداخلت بے جا پر ہلکی سی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمہیں پتا نہیں یہ میرا کالم لکھنے کا وقت ہے‘‘۔ بیگم کہنے لگی ’’ٹھیک ہے پھر آج دوپہر اور رات کا کھانا رہنے دیں اور آپ یہاں بیٹھ کر سکون سے اپنا کالم نہیں پورا اخبار لکھیں‘‘۔ میں نے کہا ’’کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟‘‘۔ بیگم کہنے لگی ’’کالم نگار صاحب! گھر میں آج دوپہر اور رات کا کھانا اسی صورت بن سکتا ہے اگر آپ اس لسٹ کے مطابق سامان لا کر دیں گے‘‘۔ میں نے ایک لمحے کے لیے دل ہی دل میں بطور کالم نگار اپنے قومی فرض اور دو وقت کی روٹی کا موازنہ کیا اور بیگم سے مزید کوئی سوال جواب کیے بغیر اپنی کالم نگاری کی دکان بند کر کے بازار جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ بھری دوپہر میں گھر سے باہر پڑنے والی گرمی کا مجھے کچھ اندازہ تو تھا مگر جیسے ہی میں نے بازار جانے کے لیے قدم گھر سے باہر گلی میں نکالے عین سر پر دہکتے ہوئے سورج نے میرے چودہ طبق روشن کر دیئے۔ گرمی کی شدت سے ہر طرف ایک ہُو کا عالم تھا جس میں دور دور تک کوئی بندہ بشر تو ایک طرف چرند پرند بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایک بار تو اس خوف سے میری جان نکل گئی کہ خدا نخواستہ اس سناٹے میں اچانک کہیں سے کوئی ڈاکو شاکو آ گیا تو مجھے اُس کے ہاتھوں لٹنے سے کون بچائے گا۔ ڈاکو کے ہاتھوں لٹنے سے بھی زیادہ میرے لیے پریشان کن بات یہ تھی کہ میں اپنی بیگم کو کیسے یقین دلائوں گا کہ ہزار روپیہ واقعی کسی ڈاکو نے لوٹا ہے۔ اسی طرح کے وسوسوں اور اندیشوں میں گھرا میں پیدل ہی بازار جا رہا تھا کہ گلی کی نکڑ پر پتا نہیں کہاں سے ایک ملنگ نما ہٹا کٹا شخص یکدم میرے سامنے آ گیا۔ ملنگ کی آمد اتنی اچانک اور ہنگامی تھی کہ مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور خوف سے میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ ملنگ نے اپنی لال سرخ آنکھوں کو میرے چہرے پر گاڑھتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑے موٹے اور رنگین ڈنڈے کو ہوا میں لہراتے ہوئے بڑے رعب دار اور تحکمانہ انداز میں کہا ’’دے اللہ کے نام کا بابا پورے ایک ہزار کا پاپا‘‘ میں ملنگ کے جارحانہ انداز میں ڈنڈا گھمانے سے خوفزدہ ہو کر مزید سہم گیا۔ میری پتلی حالت دیکھ کر ملنگ نے لہجے میں کچھ نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا ’’بول تیرے من کی مراد کیا ہے بچہ جو بولے گا وہ پائے گا‘‘۔ ملنگ کے لہجے کی نرمی سے میرے حواس کچھ درست ہوئے تو مجھے لگا یہ ملنگ واقعی کوئی پہنچا ہوا درویش ہے جسے یہ بھی پتا ہے کہ میرے پاس ایک ہزار کا نوٹ ہے۔ میں نے سوچا ایک ہزار روپے میں من کی مراد کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ اس دوران ایک لمحے کے لیے بیگم کی شدید ناراضی اور غصے سے بھری شکل میرے ذہن میں آئی جسے میں نے فوراً ہی یہ سوچ کر جھٹک دیا ’’جدوں ہووے گا حساب اُدوں ویکھ لاں گے‘‘۔ میں نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکال کر دونوں ہاتھوں سے نذرانے کے انداز میں بڑے ادب سے ملنگ کی طرف بڑھایا جسے اُس نے میرے ہاتھوں سے فوراً ہی جھپٹ لیا اور نوٹ کو سورج کی روشنی میں الٹا پلٹا کر چیک کرنے لگ گیا۔ میں نے کہا ’’سائیں جی وہم نہ کریں اصلی نوٹ ہے سیدھا اپنی بیگم سے لے کے آ رہا ہوں‘‘۔ ملنگ نے نوٹ کو اپنے کرتے کے نیچے سلوکے کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا ’’بول بچہ! تیرے من کی مراد کیا ہے؟‘‘ میں نے ججھکتے ہوئے کہا ’’سائیں جی! آپ سب جانتے ہیں‘‘ ملنگ تھوڑا گڑ بڑا گیا لیکن فوراً سنبھل کر کہنے لگا ’’ملنگ سب جانتا ہے مگر تیرے منہ سے سننا چاہتا ہے‘‘ میں نے لجاتے ہوئے کہا ’’سائیں جی! میں ایک صحافی ہوں اور پچھلے کچھ عرصے سے ماہنامہ ’’جڑی بوٹی‘‘ میں کالم لکھ رہا ہوں مگر اب تک مجھے ’’وہاں‘‘ سے خیر سگالی کا کوئی پیغام نہیں آیا جہاں سے خیر سگالی کے ایک پیغام سے کسی بھی صحافی کے دن پھر جاتے ہیں اور جس کا ہمارے ملک میں تقریباً ہر صحافی اور سیاستدان منتظر رہتا ہے۔ میرے دل میں اپنی قوم کے لیے بہت درد ہے میری خواہش ہے تھوڑے سے ماہانہ راشن پانی کے بدلے میں بھی اُس محبِ وطن ٹیم کا حصہ بن کر ملک اور قوم کی بے لوث خدمت کروں۔ میری بات سن کر ملنگ نے سلوکے سے ہزار کا نوٹ نکالا اور مجھے واپس کرتے ہوئے کہا ’’بچہ یہ پکڑ اپنے پیسے مجھے اندازہ ہے اس نوٹ کے بدلے گھر میں بیوی کے سامنے تمہاری جو کڑی پیشی ہونی ہے‘‘ میں نے نوٹ پکڑتے ہوئے جھینپ کر کہا ’’سائیں جی! میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ ملنگ نے مسکراتے ہوئے کہا بچہ جس اخبار میں تُو نے ابھی کالم لکھنا شروع کیا ہے وہاں میں نے اسی آس پر پورے پانچ سال کالم لکھے ہیں مگر مجھے ابھی تک وہاں سے کسی قسم کا خیر سگالی کا کوئی پیغام نہیں آیا۔ تجھے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں کالم لکھتے ہوئے اور تُو ابھی سے ا تنا بے صبرا ہو گیا ہے۔ میری ایک بات اچھی طرح اپنے پلے باندھ لے کہ تُو جس منتر کا جاپ کر رہا ہے یہ کبھی کبھی اُلٹا بھی پڑ جاتا ہے لہٰذا اس حوالے سے تیزی دکھانے اور اتاولا ہونے کے بجائے میری طرح صبر سے کام لے اور یہ سوچ کر اشاروں کنائیوں میں اُن کے حضور لگاتار اپنی گزارشات پیش کرتا رہ کبھی تو دلِ زار اُنہیں پیار آئے گا۔

تبصرے بند ہیں.