کچے کے ڈاکو اور ایٹمی ملک

43

کچے کا علاقہ تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر مشتمل اس علاقے میں اکثریتی رقبہ محکمہ جنگلات و ریونیو کی ملکیت ہے۔ جنوبی پنجاب، شمالی سندھ اور دریائے سندھ کے دونوں اطراف کے علاقے تقریباً 80 کی دہائی سے خطرناک ڈاکوؤں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ کچے کا علاقہ ویسے تو لاکھوں ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے لیکن ڈاکوؤں کے ہر گینگ کا مسکن 20 سے 22 کلومیٹر کی پٹی تک محیط ہوتا ہے۔ ڈاکوؤں کا یہ راج راجن پور، روجھان، کشمور، جیکب آباد، انڈس ہائی وے اور اس سے ملحقہ علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پنجاب میں کچے کا علاقہ کسی دور میں نواب آف بہاولپور کی شکار گاہ ہوا کرتا تھا۔ گذشہ 4 دہائیوں سے کچے کے علاقے پر ڈاکوؤں نے دہشت قائم کر رکھی ہے۔ 1990 سے لیکر اب تک تقریباً ہر سال یہاں پولیس اور رینجرز کی مدد سے آپریشن کیا جاتا ہے جس پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر اس علاقے سے ڈاکوؤں کے راج کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ گذشہ برس بھی کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بڑا آپریشن کیا گیا مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ اپریل 2016 میں کچے کے چھوٹو گینگ نے 22 پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا اور سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔ اس کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوج کی مدد مانگی اور یہاں آپریشن ’ضرب آہن‘ شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں چھوٹو گینگ نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئیے۔ آپریشن کے دوران ان کے کیمپس بھی تباہ کر دئیے گئے تاہم چند سال بعد ہی پھر سے ڈاکوؤں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ اس اندھیر نگری کی داستان تو بہت طویل ہے مگر یہاں پر ایک واقعے کا ذکر کرنا بہت اہم ہے۔ سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر جہاں تھرمل پاور پلانٹ لگا ہوا ہے چند سال قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اس علاقے میں ڈاکوؤں نے چینی باشندوں کو اغوا کیا۔ چینی باشندوں کو 12 کروڑ روپے کا تاوان ادا کر کے رہا کرایا گیا۔ اس واقعے کے بعد فوج نے یہاں آپریشن کیا اور اس ڈاکو کو پکڑ لیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ 12 کروڑ روپے تاوان کی خطیر رقم سے اس نے کیا کیا اور اتنا تاوان کیوں مانگا تو اس ڈاکو نے انکشاف کیا کہ 12 کروڑ روپے کا تو پتہ نہیں اسے تو صرف 12 لاکھ روپے دئیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت مزاری قبیلے کی ایک با اثر سیاسی شخصیت نے ڈیل کرائی تھی۔ اس نے 12 کروڑ روپے بطور تاوان ڈاکوؤں کو دینے کیلئے لیے تھے۔ اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ڈاکوؤں کی سرپرستی با اثر وڈیرے اور دیگر طاقتور افراد کرتے ہیں ورنہ ریاست کے اندر ریاست کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ریاست اتنی کمزور ہے کہ چند سو ڈاکو پوری ریاست پر بھاری ہیں۔ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ تو دور کی بات سکیورٹی فورسز اپنے اہکاروں کا تحفظ کرنے میں بھی بُری طرح ناکام ہیں۔ کچے کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پولیس کے 12 جوانوں کے بے بسی سے موت کو گلے لگانے کے واقعے نے ایک بار پھر یہاں حکومتی رٹ کی کمزوری کو اجاگر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ان ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ تھا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ ملک کے وسطی علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟ کون ہے جو ان کی پشت پناہی کر رہا ہے؟ جدید اسلحہ چلانے کی تربیت کہاں سے لی جا رہی ہے ؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان یہ اسلحہ ان کو فراہم کرتے ہیں جو کہ بلوچستان کے راستے پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس امریکی ساختہ اسلحہ بھی موجود ہے۔ سوال مگر وہی ہے کہ ان تک اسلحہ پہنچتا کیسے ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ خبر کیونکر نہیں پہنچتی؟ وقت نے ان ڈاکوؤں کو اتنا منظم اور مضبوط بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ ریاست کے لیے ہی ایک خطرہ بن چکے ہیں۔ پولیس جس کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ہے اس کا سارا زور صرف اپوزیشن کے جلسے جلوس، احتجاج کو روکنے پر ہے۔ ان کی جرأت اور بہادری کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کے بجائے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کے گھروں میں گھسنے تک محدود ہے۔ ظالم سے مقابلہ اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی صلاحیت مفقود نظر آتی ہے۔ پولیس فورس کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر سیاسی فوائد کیلئے استعمال نے اسے کمزور کر دیا ہے۔ کچے کے ڈاکو تو 90 کی دہائی میں بھی جدید اسلحہ سے لیس تھے اور اس وقت بھی ان کے پاس راکٹ لانچرز تھے۔ مگر پولیس جس نے ان خطرناک گینگز سے مقابلہ کرنا ہے ان کے پاس گاڑیاں بھی جدید دور کی نہیں اور نہ ہی ہتھیار اس قابل ہیں کہ ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے۔ ان کو مرنے کے لیے لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکو کئی پولیس افسران کی جان لے چکے ہیں۔ مگر ہر سُو خاموشی اور ہُو کا عالم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہو چکی ہے۔ کچے کے تمام علاقے نو گو ایریا بن چکے ہیں۔ چند روز قبل ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں بڑے اعتماد کے ساتھ پاکستانی عوام کو بتایا کہ پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا تاہم پولیس فورس کے ساتھ دل دہلا دینے والے حالیہ واقعے نے اس دعوے پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسی دنیا جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ کہنے کو دنیا میں ایٹمی صلاحیت کے حامل ساتویں ملک ہیں اور حالت یہ ہے کہ ہم سے کچے کے ڈاکو ہی نہیں سنبھالے جا رہے۔ اپنی جگ ہنسائی کا موقع ہم خود فراہم کرتے ہیں اور گلہ کرتے ہیں کہ دنیا ہمیں سنجیدہ کیوں نہیں لیتی۔ اب سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیں۔ عوام پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کیلئے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے مگر دوسری جانب کچے کے ڈاکو شاہد لنڈ گینگ نے اپنا یو ٹیوب چینل بنا لیا ہے اور کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ ریاست کو بھی سوچنا ہو گا کہ پاکستانی عوام اب اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ انہیں محض لفاظی سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی جو کچے میں پولیس کے جوانوں کا قتل عام ہوا اس کے بعد تو ریاست کو پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے تھا۔ ان ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنا ہر سکیورٹی ادارے کی اولین ترجیح ہونا چاہیے تھا مگر تاحال خاموشی ہے۔ ان ڈاکوؤں کا پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے وڈیروں کے ساتھ گٹھ جوڑ توڑنا اور بلا امتیاز کارروائی کرنا ہو گی وگرنہ کچے کے ڈاکوؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ پکے کے ڈاکو ملے ہوئے ہیں تب تک کچے کے ڈاکوؤں کا صفایا ناممکن ہے۔ عوام ہے کہ دونوں گروہوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ ریاست کے مفاد میں کچے کے ڈاکو ہیں اور نہ ہی پکے کے۔ اب فیصلہ ریاست کو کرنا ہے کہ اس نے عوامی مفادات کے لیے ان کا صفایا کرنا ہے یا پھر ایسی کئی بڑے سانحات جھیلتے ہوئے چلنا ہے۔

تبصرے بند ہیں.