اللہ تعالیٰ نے صنف نازک کو بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے، جذباتی فطرت کی وجہ سے یہ جلد بہکاوے میں آ جاتی ہے، مغرب نے عورت کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمیشہ اس کا استعمال اور استحصال کیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم اقوام نے عورت پر جس قدر ظلم و ستم روا رکھے ہیں، شاید اپنے معاشرے کی کسی اور صنف پر اتنے مظالم انہوں نے نہ ڈھائے ہوں۔ کہیں اسے میراث سے محروم کیا گیا، کہیں اسے اپنے شوہر کی چتا میں جلایا گیا، کہیں اسے سوسائٹی میں جانوروں سے بھی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مغربی معاشروں میں آج بھی عورت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اپنی دہشت، وحشت کو قائم رکھنے کے لیے معصوم بچوں کو قتل کرانا اور خواتین کو بطور ڈھال استعمال کرنا فراعین مصر کا شیوہ ہے۔ آج بلوچستان میں، بلوچ قوم کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے دہشت گردوں نے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے خواتین کا استعمال کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور نہ ہی مسلمان، وہ صرف دہشت گرد ہیں۔ دشمن ممالک اور ان کے ایجنٹ ایک طویل مدت سے بلوچستان کے امن و امان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، جن کا مقصد بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے، کیونکہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بلوچستان ’’گوادر‘‘ عالمی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے، الحمدللہ! بلوچستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب سے سی پیک کا معاہدہ ہوا امریکہ اور بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ وہ اس کی دسترس اور اثر سے نکل جائے گا تو دوسری جانب چین کو بڑی اقتصادی قوت بننے سے روکا نہیں جا سکے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ نیوکلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے وہ پاکستان کو چیلنج نہیں کر سکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت و حیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی
آشیر باد سے بھارت اور افغانستان دہشت گردی اور شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، اس پر جنرل حمید گلؒ نے سالہا سال پہلے بالکل درست فرمایا تھا کہ نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ بھارت پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کو اسلحہ اور فنڈز فراہم کرتا ہے جس سے دہشت گرد تنظیمیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ جیسی اپنی سہولت کاروں کی وساطت سے بلوچ عوام کو ریاست کے خلاف من گھڑت، بے بنیاد پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کر رہی ہیں، بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان نسل، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کو قومیت اور آزاد ی کے نام پر جذباتی کر کے خود کش بمبار بنایا جا رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہیں، انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ریاست انہیں، ان کے حقوق نہیں دے رہی۔ پھر ان نوجوانوں کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم، ملازمت اور نیشنلٹی جیسے جھوٹے خواب دکھا کر اپنے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور انہیں پہاڑوں پر موجود دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، دوسری طرف دہشت گردوں کی پراکسی، نام نہاد بلوچ یک جہتی کمیٹی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ جیسی ملک دشمن عناصر ان دہشت گردوں کو ’’لاپتا‘‘ افراد کا ٹائٹل دیکر ان کی خواتین کو یہ بتا کر کہ ان کے پیاروں کو ریاست نے جبری گمشدہ کیا ہے، اس منفی پراپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کر کے سٹرکوں پر لے آتی ہیں۔ جہاں احتجاج اور دھرنوں میں ان خواتین کے ہاتھوں میں اپنے عزیز و اقارب کی تصاویر اور ریاست مخالف پلے کارڈ پکڑا کر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ اور فنڈنگ حاصل کی جاتی ہے ، ساتھ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ خدانحواستہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سی دین بلوچ جیسے ایجنٹ، دشمن ممالک سے لاکھوں ڈالر وصول کرتے ہیں۔ میں اپنے متعدد کالمز میں ان حقائق کو تحریر کر چکا ہوں کہ ’’مسنگ پرسن‘‘ کے نام پر دئیے جانے والے دھرنے، احتجاج در حقیقت نئے دہشت گردوں کے لیے بھرتی سنٹرز ہیں جہاں پر دہشت گرد تنظیموں کے سہولت کار نوجوانوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے مظالم کے حوالے سے جھوٹی کہانیاں سنا کر گمراہ کرتے ہیں، ان کی اس حد تک برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کے خون بہانے کو جہاد سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ احتجاج کے نام ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے بے گناہ افراد کا قتل کیا جاتا ہے، جس طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں کئی بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ کئی سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی شہید کیا گیا۔ ریاست جب دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو ان کے سہولت کار خواتین کو ڈھال بنا کر ریاست کو بلیک میل کرتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں یہ جانتی ہیں کہ ریاست پاکستان اور ریاستی ادارے ہمیشہ خواتین کا احترام کرتے ہیں، اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بزدل خواتین کو فرنٹ پر رکھتے ہیں۔ خواتین یہ کب سمجھیں گی کہ ان کے پیچھے چھپ کر وار کرنے والے ان کے حقوق کے محافظ نہیں ہو سکتے۔ دہشت گرد تنظیموں نے خواتین کو قومیت کے نام پر جذباتی کر کے، انہیں بلیک میل کر کے خود کش بمبار بنا کر ان کی دنیا و آخرت تباہ کی اورکئی نسلوں کو بربادکیا ہے۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا قتل کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی صورت بلوچ عوام اور بلوچستان کی خیر خواہ نہیں ہو سکتی۔ بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے بہادر مرد دوسری اقوام کی خواتین کی حفاظت کرتے تھے، آج عورت کے آنچل کے پیچھے چھپ کر دہشت گردی کو انجام دینے والے بہادر نہیں بلکہ بزدل ہیں۔ خواتین کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرنا اور ان کا استحصال کرنا مغربی معاشروں کی ریت ہے، دور حاضر میں یورپ، امریکہ اور دوسرے تجارتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ آج بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں خواتین کو بطور ڈھال استعمال کر رہی ہیں۔ دین اسلام میں عورت کو اتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جو اسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی امت اسے پا سکی، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہی سے بچائے۔ آمین۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.