یہ تصور کرنا قدرے مشکل ہے کہ عالم اسلام کے اہم ترین ملک کا سربراہ اپنی زندگی کو لاحق خدشات کا اظہار کرے لیکن اس کے باوجود ہر طرف خاموشی ہو۔ سعودی عرب کے فرمانروا آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں، انہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔محمد بن سلمان کے حوالے سے یہ ایک مختصر ترین خبر ملک کے سب سے بڑے اخبار نے شائع کی ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی میں ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں قتل کیا جا سکتا، عالم اسلام سے تعلق رکھنے والے اہم ممالک کے سربراہ شاہ فیصل ، جنرل ضیاء الحق، معمر قذافی بے نظیر بھٹو، صدام حسین، انور السادات، ابراہیم نفیسی، سب کے سب اندھیرے میں مارے گئے۔ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ خود سازش نہیں کرتا، وہ فقط اشارہ کرتا ہے پھر ہر جگہ بیٹھے اس کے گماشتے سازش کرتے ہیں اور ہدف کو نہایت کامیابی سے اس طرح نشانہ بناتے ہیں کہ دامن پر داغ تو لگتا ہے لیکن کوئی اس حوالے سے لب کشائی نہیں کرتا، امر ربی کہہ کر دل کو تسلی دی جاتی ہے مضطرب دلوں کو قرار آجاتا ہے۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ محمد بن سلمان کو دھمکی دی گئی ہے تو کس نے دی ہے۔ کوئی خود آیا ہے، کسی نے فون پر پیغام دیا ہے، انہیں اس کی انٹیلی جنس نے یہ اطلاع پہنچائی ہے یا کسی دوست ملک نے یہ بات ان تک پہنچائی ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس دھمکی کے پیچھے کیا ہے۔ ہمارے سامنے کچھ نقطے بکھرے پڑے ہیں، انہیں جوڑیں تو بات واضح ہوتی نظرآتی ہے۔
محمد بن سلمان کی طرف سے خدشات کے اظہار کے بعد امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا ہے کہ نئی امریکی حکومت آنے سے قبل سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا، دنیا کے بعض ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں جن میں کچھ مسلمان ملک بھی شامل ہیں لیکن جن ممالک میں اسے تسلیم نہیں کیا ان میں اہم ترین سعودی عرب، پاکستان اور ایران ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں خوب جانتے ہیں کہ جب تک یہ ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، اسرائیل اور امریکہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ وہ پاکستان پر دبائو ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ پاکستان میں ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں ہے، جناب نواز شریف یا شہباز شریف پر دبائو ڈالا جائے تو کیا وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، جواب ہے نہیں، اگر ملک میں صدر آصف زرداری کے ساتھ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو تو کیا انہیں اس امر پر منایا جا سکتا ہے تو جواب ہے نہیں، پاکستان میں کسی مذہبی جماعت کے سربراہ کو وزیراعظم بنا دیا جائے تو کیا وہ یہ کر گزریں گے، اس کا جواب بھی نہیں میں ہے، مذکورہ تمام شخصیات پر دبائو بڑھایا جائے تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر حکومت سے علیحدہ ہو سکتی ہیں۔ قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان ہو سکتا ہے، صوبائی حکومتیں ختم بھی کی جا سکتی ہیں،واقفان حال، نظام کو انجام تک جلد پہنچنے کی بات کرتے نظر آتے ہیں، وہ اس کی وجہ اقتصادی اعتبار سے ہماری ڈوبتی نبضیں بتاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت معاملات کو سدھارنے میں ناکام رہی ہے، یہ بڑی وجہ تو ہے ہی لیکن اس کے علاوہ بعض اور وجوہات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکہ ، یورپ اور اسرائیل میں ایک تاثر موجود ہے جس کے مطابق پاکستان میں پس دیوار زنداں ایک شخصیت موجود ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ پا کر بھاگتے دوڑتے آئے گی اور ان کا مسئلہ حل کر دے گی، اب آتے ہیں بکھرے ہوئے نقاط میں سب سے اہم نقطے کی طرف۔ چند روز قبل اسرائیل سے شائع ہونے والے ایک اہم ترین اخبار میں ایک مضمون نہایت اہتمام سے شائع کیا گیا جس میں اس شخصیت کو اس کام کیلئے موزوں ترین بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے امریکہ، اسرائیل اور یورپ میں اس شخصیت کی رسائی کیلئے زبردست مہم جاری ہے جس میں ہمارے دشمن ممالک پیش پیش ہیں، یہ مہم اتنی ہی طاقتور ہے جتنی امریکہ میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے صدارتی امیدواروں کی، دونوں معاملات میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، ایسے پراجیکٹ اسی طرح آگے بڑھتے ہیں، خوب یاد پڑتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار کے آخری ایام ایک کھلی جیپ میں سوار ہو کر راولپنڈی کے راجہ بازار پہنچ گئے، انہوں نے اس موقع پر دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کیلئے ملک میں ڈالروں کا سیلاب لایا گیا ہے پھر چند روز بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے شہرئہ آفاق خطاب میں کہا، ہاتھی بہت کینہ پرور ہوتا، ہاتھی ان کی جان لینا چاہتے ہیں، ان کا اشارہ امریکہ میں اقتدار میں موجود سیاسی جماعت کی طرف تھا پھر ایسا ہی ہوا، ہاتھیوں نے انہیں مسل ڈالا، ان کی پھانسی کے بعد تحریک نظام مصطفی اور اس کے سرخیل خاموشی سے نئے نظام کے ہاتھ پر بیعت کر گئے، قوم نے بھی ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔
دنیا بھر کی حکومتیں اپنے قریب الختم دور میں اہم فیصلے نہیں کرتیں لیکن امریکہ میں بائیڈن حکومت جانے سے پہلے اپنے دھونے، دھونے کیلئے دنیا کو شاید کوئی سرپرائز دینا چاہتی ہے، اس کی جھلک امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے بیان میں ملتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں عالم اسلام اسرائیل کو تسلیم کر لے، تمام نہیں تو کم از کم سعودی عرب تو ضرور، پاکستان کو کچھ وقت دیا جا سکتا ہے لیکن سالہا سال نہیں چند ماہ، سعودی عرب کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اسرائیل جنگ بند کرے، فلسطین آزاد ہو لہٰذا دو ریاستی حل سامنے آیا، اس پر بہت کام ہو چکا ہے، بہت کم باقی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول کیلئے جس پاکستانی شخصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں باقی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اس کے وقار کو بلند کرنے کی سرتوڑ کوششیں بھی نظر آتی ہیں، اس کے لئے لبرل ورلڈ میں بھی کام ہو رہا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے الیکشن میں کامیابی کو منزل کی طرف ایک قدم قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کا ایک فیصلہ آیا ہے جس سے امیدوں کے چراغ روشن ہوئے ہیں، جن مقدمات میں سزا سے بچنا محال نظر آتا ہے وہ مقدمات ختم ہو سکتے ہیں، اس فیصلے سے پاکستان کی تمام سیاسی لیڈرشپ، بیوروکریسی اور اہم کاروباری شخصیات کو غسل صحت حاصل ہوا ہے، اس کا فائدہ اسے بھی ملا ہے جس نے اس قانونی ترمیم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، میں چشم تصور سے ایٹم بم سے بڑا سیاسی دھماکہ دیکھ رہا ہوں، جس کے نتیجے میں وہ کچھ ہونے والا ہے جس کا تصور بھی محال تھا، دیکھنا باقی ہے جناب ’’ضیاء الحق‘‘ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.