اڈیالہ جیل میں خان کو قید ہوئے 400 دن ہو گئے، سیاسی راستہ نہیں ملا تو حسب عادت دھمکیوں پر اتر آئے جس ’’صیاد مہربان سے مانوس‘‘ تھے۔ اس سمیت 61 اہلکاروں کے تبادلے کر دئیے گئے۔ جو نئے تعینات کیے گئے ان کی بھی نگرانی انہیں ’’چاک داماں کی حکایات‘‘ سنانے کی اجازت نہیں۔ نامہ بر گیٹ پر روک لیے جاتے ہیں۔ صحافیوں کی تعداد میں کمی، صرف مقدمہ کی رپورٹنگ کریں گے۔ کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ سیانوں نے سفارش کی کہ ایسے وی وی آئی پی قیدی کو اڈیالہ جیل کا چانسلر بنا دیا جائے آکسفورڈ کے لاکھوں ووٹر تھرڈ ڈویژن گریجویٹ کو چانسلر بنانے کی بدنامی مول نہیں لیں گے۔ خان اور ان کی پارٹی کے لیے سرپرائز ہی سرپرائز، اسلام آباد سے پنڈی تک ہوشربا فیصلے، ایک آئینی ترمیم سب کو حیران کر دے گی۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی ترمیم تیار ہے بندے پورے کرنے ہیں۔ جمہوریت میں ’’بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔‘‘ قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن کی تقریر نے حکومت کا حوصلہ بڑھا دیا۔ صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقاتیں بار آور ثابت ہوئیں، قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے 8 ارکان مل گئے تو حکومتی ارکان کی تعداد 219 ہو جائے گی 224 کی ضرورت ہے۔ اختر مینگل کا عین وقت پر استعفیٰ بدشگونی قرار دیا جا رہا ہے۔ 2022ء میں ان کے استعفیٰ سے ہی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ ’’روٹھے سیاں‘‘ کو منانے کی کوششیں جاری ہیں۔ سینیٹ میں 64 کی حمایت درکار، جے یو آئی کے 5 سینیٹر ملا کر حکومت کو 58 کی حمایت حاصل 6 سینیٹر، ’’آزاد ارکان‘‘ سے توڑے جانے کی امید، سیدھی سچی بات جنہوں نے منانا اور توڑنا ہے وہ منا اور توڑ لیں گے۔ ترمیم اسی ماہ کے تیسرے ہفتے میں لائے جانے کا امکان ہے۔ حکومت نے اپنی فیلڈنگ مکمل کر لی ہے۔ شاید اسے تین اہم کام کرنے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع، ججوں کی تعداد میں اضافہ اور بڑے جج کی تعیناتی کے اختیارات۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ خان نے یہ ترامیم اپنے دور میں آرڈیننسوں کے ذریعہ کی تھیں۔ بعد ازاں پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعہ انہیں آئینی شکل دی تو خان نے
انہیں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ان ترامیم کو آئینی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’نیازی‘‘ نے بد نیتی کی بنیاد پر نیب ترامیم کو چیلنج کیا۔ وہ اپنا موقف ثابت نہیں کر سکے، عدلیہ پارلیمنٹ کی گیٹ کیپر نہیں، پی ٹی آئی اس فیصلے پر اس ’’دیہاتی بابے‘‘ کی طرح پہلے روئی پھر ہنسی جو ہاتھی گزرتے دیکھ کر پہلے رویا پھر ہنسا تھا۔ پوچھنے پر بولا۔ ’’پترو رویا اس لیے کہ میں نہ ہوتا تو تمہیں کون بتاتا کہ گائوں سے کیا چیز گزری ہے اور ہنسا اس لیے ہوں کہ میرے بچوں مجھے بھی پتا نہیں کہ یہ کیا چیز تھی۔‘‘ پی ٹی آئی کے لیڈروں نے پہلے روتے ہوئے فیصلہ کو این آر او ٹو قرار دیا پھر ہنستے ہوئے خان کی خلاف توشہ خانہ 2 اور 190 ملین پاؤنڈ کیس ختم ہونے پر بغلیں بجائیں حالانکہ ماہرین قانون کے مطابق دونوں مقدمات ایف آئی اے یا کسی اور ادارے کو منتقل ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس فیصلے نے خان کے چہرے سے صادق اور امین کا نقاب اتار پھینکا۔ پی ٹی آئی نے فیصلہ آنے سے قبل حکومت سے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا تھا۔ رانا ثنا اللہ کی شرارت تھی یا رواداری میں دعوت، یاروں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ محمود خان اچکزئی اکیلے ہی مذاکرات کی ڈگڈگی بجانے لگے۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال نے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا۔ کون اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گا۔ مذاکرات ڈھکوسلہ، ڈھونگ، ڈرامہ، بیرسٹر گوہر، رئوف حسن اور عمر ایوب مایوس ہو کر پھر مقتدرہ سے بات چیت پر اصرار کرنے لگے۔ ادھر خاموشی، پہلے معافی پھر تلافی کی شرط، عمر ایوب ہتھے سے اکھڑ گئے ’’اللہ سے معافی مانگیں گے کسی اور سے کیوں مانگیں‘‘ ہرگز معافی نہ مانگیں معافی کی صورت میں خان جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔ باہر آ گئے تو ہما شما کو کون پوچھے گا۔
خان ہر گزرتے دن کے ساتھ دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ ڈیتھ سیل کی باتیں نہ کیا کریں کسی نے سن لیا تو واقعی 6×10 کے سیل میں منتقل کر دیں گے۔ اکتوبر سے آس امید نہ لگائیں نومبر دسمبر میں بھی یہی شب و روز رہیں گے۔ خان کے سب سے بڑے اثاثے جنرل (ر) فیض پر ذاتی اور سیاسی مفادات کے الزامات مبینہ طور پر ثابت ہو گئے۔ ابہام کی گنجائش نہیں، سزا یقینی، اپنے کپتان کا کیا ہو گا، ایک بہت پہنچے ہوئے (اوپر تک رسائی والے) بزرگ کا کہنا ہے کہ امیدیں پوری نہیں ہوں گی۔ حالات جیسے چل رہے ہیں چلتے رہیں گے، حکومت کہیں نہیں جا رہی، 48 تبادلوں نے سہولت کاروں کی سٹی گم کر دی ہے۔ چند کفارہ دینے پر آمادہ، اوپر والے اپنے عزائم پر قائم، پہلے کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ انتشار پسندوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ بعد میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا بریفنگ میں واضح کر دیا کہ محفوظ پاکستان ہی مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔ ہماری فوج قومی فوج ہے اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں کسی جماعت کی حمایتی یا مخالف نہیں۔ اس کا اپنا خود احتسابی نظام ہے دوسرے ادارے بھی ایسا نظام اپنائیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اپنے مفاد میں شامل کرتا ہے جو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہو تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ جنرل (ر) فیض کیس سے جو بھی منسلک یا ملوث ہوا اس کا کتنا ہی بڑا عہدہ یا حیثیت ہو قانونی کارروائی سے نہیں بچ جائے گا۔ ابہام دور، جواب مل گیا۔ فیض کیس کو مضبوط بنانے کے لیے بعض سویلین سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ خان اپنی حکمت عملی یا تیز طراری کے بار بار بار جنرل (ر) باجوہ کا نام لے کر دراصل اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ جنرل (ر) فیض کے بعد از ریٹائرمنٹ اعتراضات کے نتیجہ میں خان بڑے ملزم کی حیثیت سے 9 مئی کے مقدمہ میں ملٹری کورٹ کے حوالے کر دئیے جائیں۔ جہاں وہ فوجی افسران سے براہ راست رابطے میں ہوں گے لیکن فیصلے تک رپورٹرز اور دیگر ملاقاتیوں کی نظروں سے اوجھل رہیں گے۔ کڑیوں سے کڑیاں مل رہی ہیں، ڈاکٹر دانش بڑے دنوں بعد بڑی خبر لے کر آئے ہیں کہ ایک بڑے کو تین سال کی توسیع مل گئی۔ 2025ء کے بعد بھی تین یا چھ سال تک بڑے ہی رہیں گے۔ دوسرے کی توسیع ترمیم سے مشروط، فیصلے اٹل، تیاری مکمل، رستہ خطرناک، جلسوں سے کام نہیں رکے گا۔ سزا ہو گی کتنی ہو گی کب ہو گی پچاس نجومی نہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.