پاکستان اپنے دور کے سنگین ترین بحران سے گزر رہا ہے گو حکومتی دعوئوں میں بہتری کی طرف سفر تو جاری ہے مگر عوام نہ صرف پریشان بلکہ اب تو وہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ حکومتی معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا، اپنے قد سے بڑھ کر اخراجات، ملک کے بڑے اداروں میں بڑھتی کرپشن، ہم نہ آگے بڑھ پا رہے ہی نہ ہم میں پیچھے دیکھنے کی ہمت ہے۔ ماضی داغدار تو حال تباہ، مستقبل میں گھرا پاکستان اس وقت سب سے بڑے انرجی کرائسس میں پھنس چکا ہے۔ ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا پاکستان انرجی کرائسس سے نکل پائے گا کیا بجلی کے بھاری بلوں سے قوم آزاد ہو پائے گی۔ میرے نزدیک ہم انرجی کرائسس سے نکل سکتے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں۔
پاکستان میں آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (IPPs) کی بدولت ہونے والی تباہی پاکستان کی توانائی کی صنعت نے آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (IPPs) کے ساتھ معاہدوں کی بدولت ہمیں ایک بہت بڑے بحران کا سامنا ہے جس نے ملکی معیشت، صنعت، زراعت اور عوام کی زندگیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ سابقہ حکومتوں اور IPPs کے ساتھ کئے گئے معاہدے نہ صرف توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کا سبب بنے بلکہ ان کے اثرات نے ملک کے دیگر اہم شعبوں کو بھی مشکلات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ IPPsکے ساتھ معاہدے مسائل اور مشکلات اور IPPsکے ساتھ معاہدے 1990ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئے جب اس وقت کی حکومت نے توانائی کے بحران کا سامنا کرتے ہوئے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت IPPsکے ساتھ طویل مدتی معاہدے کئے گئے جن میں انہیں بجلی کی خریداری کی ضمانت اور پھر طے شدہ نرخوں پر ادائیگی کی گئی تاہم ان معاہدوں کی بدولت بجائے ہم بہتری کی طرف جاتے یہاں متعدد مسائل نے جنم لیا جن کے اثرات سے پاکستانی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں طے شدہ نرخ عموماً بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بجلی پرائیویٹ ادارے فراہم کرتے ہیں اس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا نمایاں اضافہ ہوا جوکہ عوام اور صنعتوں دونوں کے لیے مشکل بن گیا۔ تازہ ترین 2024ء کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بجلی کی قیمتیں عالمی اوسط قیمتوں سے تقریباً 30فیصد زیادہ ہیں اور یہ اضافہ ان معاہدوں کی بدولت ہوا ہے جن میں آئی پی پیز کو طے شدہ نرخوں کی ضمانت دی گئی، چاہے عالمی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتیں کم ہی کیوں نہ ہوں اس سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کی صنعتی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہمارے وہ صنعتی ادارے خاص طور پر جو توانائی کی بڑی مقدار استعمال کرتے ہیں ان کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی مسابقتی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ 2023ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صنعتی پیداوار میں 15فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔ اس اضافے کا برا اثر عوام کی زندگی پر بھی پڑا ہے اور اپنی بجلی کے بلوں میں اضافے نے عام لوگوں کی مالی حالت کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے ایک غریب بندے کو ایک ایک لاکھ بل آئے جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں مشکلات آئیں۔ 2024ء کی ایک تحقیق کے مطابق آج میرے پاکستان کے 40فیصد گھرانے بجلی کے بل دینے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف یہ بل دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے انہیں بجلی کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ میرے نزدیک آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں نے پاکستان کی معاشی ترقی کی راہوں کو بھی روکا اور آج بلند توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے ملکی معیشت میں غیریقینی صورتحال کا شکار ہے جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ میرے سامنے 2024ء کی رپورٹ پڑی ہے جس میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح میں 2فیصد کمی کیوں واقع ہوئی۔ اگر حکومت انرجی کرائسس ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو پھر پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی بدولت ہونے والی تباہی کے پیش نظر حکومت کو فوری اور موثر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ موجود معاہدوں پر نظرثانی کرے اور عوام کی سہولت کے لیے توانائی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے اور توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف توجہ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی پیداوار کے شعبے میں اصلاحات کرنی چاہئے تاکہ ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے تاکہ معیشت مستحکم ہو۔ آج پاکستان میں آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں آئی پی پیز کے ساتھ ان معاہدوں نے نہ صرف ملک کو بحران کی طرف دھکیلا بلکہ ان سے ہم ایک بڑے انرجی بحران میں پھنس چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئی پی پیز پاکستانی عوام کو کم نرخ پر بجلی دے پائیں گے انہوں نے ہی تو زیادہ لوٹ مار کی ہے۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور آئی پی پیز سے چھٹکارا پانے اور بڑھتے انرجی کرائسس کا ایک ہی حل ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائیں جائیں۔ 24کروڑ عوام کے لیے صرف دو بڑے ڈیم وہ بھی ایوب خان نے بنائے اور کالاباغ ڈیم جس کو سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا اگر آج وہ ڈیم بنا ہوتا تو شاید ہم ہمسایہ ملکوں کو بجلی فراہم کر رہے ہوتے۔ آج تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک ہی راز ہے کہ انہوں نے ڈیموں کے جال بچھائے اور ہم ڈیموں کو سیاست کی نذر کرتے رہے اور مجھے تو خدشہ ہے کہ اگر جلد از جلد پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم نہ بنائے تو جس رفتار سے اس خطے میں پنی نیچے کی طرف جا رہا ہے کہیں ہم قحط کا شکار نہ ہو جائیں۔ تمام مسئلوں کا حل پانی جو ہمارے پاس نہیں ہے اور بڑی بدقسمتی کیا ہے کہ دریا بھی سوکھ رہے ہیں کہ پانی نہیں ہے ہم کس قدر بدقسمت ہیں کہ انرجی کرائسس پر سیاست ہو رہی ہے کام ہوتے نظر نہیں آ رہے یہی سلسلہ رہا تو پھر آنے والے دنوں میں حالات اور بے قابو ہو جائیں گے، ان کو روکا جائے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.