دکھ ہزار سہی جینا پھر بھی ہے

35

ہمارے اسی اخبار کے صفہ اول پر چھپنے والی تین کالمی خبر کے مطابق ملکوال کے گاؤں چک رائب کے توقیر کی شادی (م) سے ہوئی تھی وہ معاشی حالات خراب ہونے پر محنت مزدوری کے لئے فیصل آباد چلا گیا مگر گھر خرچہ نہ بھجوانے پر میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہنے لگا چند روز پہلے بجلی کے بل اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیوی نے اپنے شوہر کو خرچہ کے لئے فون کیا تو ان کی آپس میں تلخ کلامی ہو گئی جس سے دل برداشتہ ہو کر بیوی نے اپنے تینوں بچوں سات سالہ سفیان احمد پانچ سالہ سبحان احمد اور دس سالہ اویس احمد کو زہریلی گولیاں کھلا دیں جس سے ان کی حالت غیر ہو گئی اس پر انہیں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ملکوال منتقل کر دیا گیا جہاں فوری طبی امداد دے کر اویس احمد کو بچا لیا گیا باقی دونوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال ریفر کر دیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔
یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے ہر صاحب اولاد کو اس کا بے حد دکھ ہوا ہے کتنے لاڈ پیار سے بچوں کو پالا پوسا جاتا ہے مگر جب کوئی وہ سب بھلا کر انہیں اپنے ہی ہاتھوں زندگی سے آزاد کرتا ہے تو انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔
اس واقعہ نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اس طرح کے اور بھی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے محرکات بجلی کے بل اور مہنگائی ہیں مگر کسی کا اپنی جان لینا یا کسی دوسرے کی جان لینا کسی مسئلے کا حل ہر گز نہیں۔زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں مگر انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے جب ہم کسی مشکل سے متعلق سوچتے ہیں حواس باختہ نہیں ہوتے تو اس کا حل ضرور نکل آتا ہے جذباتی ہونے سے کچھ نہیں ہوتا غصے کی حالت میں جو بھی فیصلہ کیا جاتا ہے وہ غلط ہوتا ہے لہٰذا اس حالت میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔اب اگر (م) کا شوہر اسے خرچہ نہیں بھجوا رہا تھا تو لازمی اس کو کوئی پریشانی لاحق ہو گی کام نہیں مل رہا ہو گا کچھ بھی ہوا ہو گا اور وہ سوچ رہا ہوگا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنی پریشانی بتاتا ہے تو وہ بہت پریشان ہوں گے مگر اسے یہ بھی علم ہونا چاہیے تھا کہ اس کی بیوی بھوک پیاس اور بجلی کے بل کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ سکے گی اور انتہائی قدم اٹھا لے گی۔
بہرحال اس کی بیوی یہ بھی سوچ رہی ہوگی کہ اس نے غصے کی آگ میں جلتے ہوئے جو کیا وہ اسے نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ بچوں کو زہر دینے سے بجلی کا بل ادا ہوا نہ اس کے گھر میں اشیائے ضروریہ کے ڈھیر لگ گئے یعنی صورت حال جوں کی توں رہی منظر معاشی بدحالی کا نہ بدل سکا۔ مہنگائی بھی کم نہ ہو سکی۔ مہنگائی کی ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اس سے وہ دل گرفتہ تب ہوتی جب اس کا شوہر گھریلو اخراجات کے لئے پیسے کم بھیجتا جبکہ وہ تو کچھ بھیج ہی نہیں رہا تھا ہاں البتہ اسے بجلی کے بل کے ادا نہ کرنے سے بہت پریشانی ہو رہی ہوگی کہ اگر اسے ادا نہیں کیا گیا تو کنکشن کٹ جائے گااور اس کے بچے گرمی میں تڑپ کر رہ جائیں گے مگر اسے یہ بات سوچنی چاہیے تھی کہ اس کے یونٹس دوسو سے کم ہی ہوں گے جس کا بل وہ کسی سے ادھار لے کر ادا کر سکتی تھی اس طرح اپنی گزر بسر بھی وہ کر سکتی تھی ابھی ہمارے معاشرے میں بے حسی اس حد تک نہیں آئی کہ وہ کسی بیوہ غریب اور کمزور کی مدد نہ کریں خیر اس نے جو بھی کیا ٹھیک نہیں کیا۔ بجلی کے حوالے سے یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ حکومت دوسو یونٹس سے اوپر والوں کو بھی رعایت دے دی رہی ہے اور یہ اچھی بات ہے مگر اس عوامی ریلیف پر آئی ایم ایف نے برا منایا ہے اور کہا ہے کہ کوئی بھی حکومت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ مرکزی حکومت نے جن شرائط پر دستخط کیے ہیں ان میں بجلی کی مد میں کوئی چھوٹ دینے کی شق شامل نہیں لہذا وہ اس ریلیف کو واپس لے۔
یہ درست ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزیں بیچ کر بھی بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں اور حکومت کو کھری کھری بھی سنا رہے ہیں مگر وہ کسی کی جان نہیں لے سکتے وہ مہنگائی کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں کہیں کہیں وہ حکومت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے احتجاج بھی کر رہے ہیں دھرنے بھی دے رہے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ حکومت مجبور ہے وہ عوام کو کچھ نہیں دے سکتی وہ عوام کو سہولتیں دیتی ہے تو آئی ایم ایف ناراض ہو جاتا ہے اور تڑی لگاتا ہے کہ وہ آئندہ قرضہ نہیں دے گا اور جب وہ قرضہ نہیں دیتا تو معیشت ہانپنے لگتی ہے حکومت کرے تو کیا‘ جان آئی شکنجے میں ویسے اسے چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد موجود ساتھیوں جو کھرب پتی ہیں سے کہے کہ ملک کے حالات خراب ترین ہیں لہٰذا وہ کچھ کریں ہم سب نے مل کر اسے بحران سے نکالنا ہے جب معیشت بہتر ہو جائے گی اور خوشحالی کی گاڑی چل پڑے گی تو وہ اپنا سرمایہ مع سود لینے کے حق دار ہوں گے۔ وہ عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں تو ہم آئی ایم ایف کے قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کاش چک رائب کی بد قسمت عورت جذباتی ہونے سے گریز کرتے ہوئے اپنے محلے اور علاقے کے مخیر حضرات سے رابطہ کرکے انہیں اپنے حالات بتاتی باوجود اس کے کہ اس وقت مہنگائی میں ہوشربا اضافے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہر کسی کو ادھ موا کردیا ہے مگر وہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور اپنی تنگی دامن کو نظر انداز کرتے ہوئے مستحق لوگوں کی مدد کر دیتے ہیں۔پاکستانیوں کے دل بہت بڑے ہیں دل بڑے نہیں تو پیسے والوں کے‘ وہ نہیں دیکھ رہے کہ غریب عوام فقط سانسیں لے رہے ہیں جسے وہ جینے کی سزا تصور کرتے ہیں۔
بہر کیف اس عورت کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو کیوں مار دیا شاید وہ اس کے شوہر پر کوئی دفعہ لگا کر اسے بھی پس زنداں دھکیل دے اور اس سے پوچھے کہ تم نے کیوں اپنی بیوی کو صورتحال کے بارے میں نہیں بتایا اگر وہ بتا دیتا تو وہ دوہری پریشانی میں مبتلا نہ ہوتی اور اپنے حواس کو قابو میں رکھتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو روزگار ڈھونڈنا نہ پڑے۔ بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس ملے تعلیم اور صحت مفت میسر ہوں۔بجلی گیس کی فراہمی چند پیسوں کے عوض حاصل ہوتی ہو انصاف سستا اور آسان ملتا ہو۔ اگرچہ اہل اقتدار نے یہ سب دلوانے کے وعدے کیے مگر افسوس انہوں نے ہر وعدہ بھلا کر اپنی ذات کو مقدم جانا اور دولت کے انبار لگانے شروع کر دئیے۔دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے غربت کو جنم دیا ہے جس سے دلخراش واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.