گول میز کانفرنس چودھریوں کا دسترخوان

55

مملکت خداداد پاکستان کے سیاست دان جو کہ کبھی ایک دوسرے کے لیے فرش راہ ہوتے ہیں لیکن بعض ٹائم حصول اقتدارکے لیے ایسے بیریئر لگا لیتے ہیں کہ بھائی کو ملنے کی بجائے پس زنداں ہونے پر ایک دوسرے کے خلاف ایسی بیان بازی کرتے ہیں کہ شریف آدمی کانوں میں انگلیاں رکھ لیتا ہے آدھی صدی پر محیط چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی گجرات کے خاندان کے درمیان سے پانی کا نکلنا مشکل تھا لیکن اس خاندان کو بھی اقتدار کی نظر کھا گئی پھر کیا ہوا چوہدری شجاعت کے خاندان کے پولیس آگے آگے چلتی اور چوہدری پرویز الٰہی کے گھروں پر چھاپے اور ہر وقت مونس الٰہی کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے ریڈ وارنٹ حاصل کر لیے اس طرح وقت بدل گیا حالات بدل گے اور چوہدری پرویز الٰہی پر اتنے مقدمات بنا دیئے گے کہ ضمانت ہونے کے بعد پھر گرفتار کر لیا جاتا لیکن چوہدری پرویز الٰہی بیان دیتے رہے عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ایک سال کے قریب جیل میں رہنے کے بعد اب چوہدری پرویز الٰہی کو چپ لگ گئی اور کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ڈیل ہوئی ہے وہ تو شیخ رشید نے انکشاف کیا کہ ’’میں چوہدری ظہور الٰہی خاندان کا نمک خوار ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ خاندان جڑا رہے اور اب جب یہ خاندان ایک ہے تو اس کی نیک نامی میں اور بھی اضافہ ہو گا‘‘ چوہدری شجاعت حسین کام کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس طرح مولانا فضل الرحمن سے وزیراعظم پاکستان اور صدر پاکستان ملتے ہیں اسی طرح چوہدری شجاعت حسین سے بھی ان کا رابطہ ہمیشہ جاری رہتا ہے گزشتہ دنوں چوہدری شجاعت حسین نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر کچھ ا ہم سیاست دانوں کو بلایا اور ان سے منت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے تمام سیاست دانوں کا ایک پیج پر اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے جس کے جواب میں ملنے والے ممبران قومی اسمبلی سینٹ اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی آج چوہدری شجاعت حسین نے یاد تازہ کر دی ہے اور ہمیں امید ہے کہ چوہدری شجا عت حسین جلد ہی اپنے دسترخوان پر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کریں گے اور پاکستان میں جتنے بھی بحران اس وقت جڑیں پکڑ چکے ہیں یا سر اٹھا رہے ہیں اس کانفرنس سے ان کے حل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلے گا جس طرح چھ ستمبر کی تقریب میں پاکستان کی سپہ سالار سید حافظ عاصم منیر نے اپنے خطاب میں تمام سیاسی جماعتوں کو باور کرایا ہے کہ ہم کسی جماعت کے ساتھ نہیں ہیں ہمارا اپنا ایک رول ہے وہ ادا کر رہے ہیں اس سے مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنس میں جس طریقے سے باتیں کرتے تھے گزشتہ دنوں کی پریس کانفرنس میں وہ بالکل نارمل تھے اور انہوں نے سخت سے سخت سوالات کا جواب بھی خندہ پیشانی سے دیا اور کہا جنرل فیض حمید کی گرفتاری پاکستانی فوج کا اندرونی معاملہ ہے جو بھی فیض حمید کی تفتیش کے دوران انکشافات کی زد میں آیا اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور قانون اپنا راستہ بنائے گا میں گزشتہ کئی کالموں میں اظہار کر چکا ہوں کہ جب تک پاکستان کے تمام سیاست دان ایک جگہ اکٹھے ہو کر ملکی مسائل کا حل نہیں نکالتے اکیلے مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کچھ نہیں کر سکتی اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کا آٹھ ستمبر کو راولپنڈی اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ کے ضامن اسٹیبلشمنٹ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے 22 اگست کا جلسہ بانی پی ٹی آئی سے رکوانے کے لیے کہا تھا اور اس کے بدلے بانی پی ٹی آئی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی آپ 8 ستمبر کو جلسہ کریں گے اور اس کا این او سی بھی جاری کر دیا گیا، اگر تحریک انصاف ایک جلسہ کر لے گی تو کون سی قیامت آ جائے گی لیکن نہ جانے خواجہ آصف، احسن اقبال یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جلسہ نہ ہو جبکہ تین دفعہ کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پنجاب مسلم لیگ نون کے صدر رانا ثناء اللہ کی تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے کا حکم دے چکے ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز اسلام اباد میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی ہے اور ملاقات بڑے اچھے ماحول اور خوشگوار طریقے سے ہوئی ہے آگے دیکھیے اس کا رزلٹ کیا نکلتا ہے کیونکہ میرے مشاہدے میں ہے اقوام عالم میں بھی اگر کوئی جنگ ہوتی ہے تو وہ ٹیبل پر بیٹھ کر ہی لڑی جاتی ہے اور حل بھی ٹیبل ٹاک اور گفتگو سے نکلتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.