یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان میاںنوازشریف کو لندن روانہ کرنے کے بعد ان کی واپسی اور علاج پر سیاست شروع کررہے تھے۔وہ پہلے پہل تو اپنی کابینہ کے فیصلے کے دفاع کے لیے شیریں مزاری کے آنسو بطور گواہی پیش کرتے۔ یاسمین راشد اور اپنے معالج فیصل سلطان کی رپورٹوں کی لاج رکھتے لیکن پھر انہوں نے نوازشریف کی بیماری اور،لندن جانے کو ڈھونگ کہنا شروع کردیا۔یہ وہی وقت تھا جب عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت کو جیلوں میں چنوانے کے مشن پرتھے ۔شہبازشریف سے مریم نوازاور حمزہ سے خواجہ آصف تک ن لیگ کے درجنوں رہنماؤں کو جیل میں ڈال چکے تھے۔حکومتی اورگورننس کے سارے معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ملک میں مہنگائی کا را ج تھا۔وزیرخزانہ اورایف بی آر کا محکمہ میوزیکل چیئربن گیا تھا اورلوگ خان صاحب کی جان کو رورہے تھے۔پی ٹی آئی کے تمام ٹائیگروں کا’’خان جدوں آوے گا ‘‘والا سارا ’’چا‘‘ اترچکاتھا۔وہ پی ٹی آئی کارکن جو گلی محلوں میں کپتان کونجات دہندہ کہتے نہیں تھکتے تھے مہنگائی اورخراب حکومتی طرزعمل کو ناقابل دفاع سمجھ کرموبائلوں میں پی ٹی آئی کے دفاع کی بجائے گیمز ڈاؤن لوڈ کر چکے تھے ایسے میں خان صاحب نے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے ایک نئے بیانیے والی کڑوی ’’دوائی ‘‘ بناکرمارکیٹ میں پیش کردی۔
یہ ’’دوائی‘‘ نوازشریف کو لندن میں تنگ کرنے کی تھی۔اس کے بعد روزانہ نوازشریف کے ایون فیلڈہاؤس کے باہراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔کارکن آتے جاتے نوازشریف پرطعنے کستے نعرے مارتے۔جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کو واپس نہ آنے پراشتہاری کیا تو عمران خان نے میاں صاحب کا شناختی کارڈ منسوخ اور پاسپورٹ کی تجدید نہ کرنے کا حکم دیا اور کارکنوں کو حکم دیا کہ وہ میاں نوازشریف کو لندن سے بے دخل کرانے کے لیے برطانوی وزارت داخلہ کو ای میلز کریں۔اس دوائی کا اثر تو نہ ہوالیکن اس میں کڑواہت اتنی تھی کہ پہلی بار پاکستان کے معاملات کو دوسرے ممالک میں اچھالنے کا تجربہ کرلیاگیا۔
عمران خان صاحب کوجب آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا تو خان صاحب نے اس کڑوی ’’دوائی ‘‘ کا استعمال بھی بے دریغ کرنے کے احکامات دے دیے۔نئی حکومت ملک کوبحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے ترلے کررہی تھی تو عمران خان کی پنجاب اور کے پی حکومتیں آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرضہ نہ دینے کے لیے خط لکھ رہی تھیں۔اس کے بعد پی ٹی آئی کے ’’کارکنوں‘‘ نے اس دوائی کا استعمال یورپی یونین میں پاکستان کو برآمدات کے لیے دیاگیا ترجیحی اسٹیٹس’’جی ایس پی پلس‘‘واپس لینے کے لیے کیا اور یورپی یونین کو یہ اسٹیس واپس لینے کے لیے خط لکھے۔امریکا میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹرکے باہر پاکستان کو قرض نہ دینے کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے۔پاکستان میں ایبسولیوٹلی ناٹ کا پرچاراور عمران خان کی جیل سے رہائی کے لیے امریکی سینیٹرزسے امریکی وزیرخارجہ کو خطوط لکھوائے گئے اورپھر امریکی سینیٹ سے قراردادبھی منظورہوئی۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ پر بھی ا سی ’’دوائی‘‘ کے تحت ورکنگ کی گئی۔ خان صاحب اور پی ٹی آئی اپنی تیارکی گئی زہریلی ’’دوائی‘‘ کو شریف برادران ،ن لیگ اورپاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے۔جب انہیں کہا جاتاکہ یہ دوائی زہرہے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہے تو پی ٹی آئی مزید خوش ہوتی اوراپنی کامیابی کا جشن مناتی ۔اب اسی ’’دوائی‘‘ کا ذائقہ خان صاحب کو چکھانے کا کام شروع ہے۔
عمران خان صاحب کاایک امتیاز یہ بھی ہے انہوں نے پاکستان کی دانشوری کو بہت آلودہ کردیا ہے۔پی ٹی آئی کے ہمدرد دانشوروں میں ایک جناب مظہربرلاس بھی ہیں۔ان کو بھی حامد میرکی طرح پاکستان کے بڑے اخبارمیں لکھنے کی جگہ فراہم کروائی گئی ہے۔انہوں نے تازہ کالم میں عمران خان صاحب کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن پرکالم لکھا ۔ فرماتے ہیں’’عمران خان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے آکسفورڈ کے چانسلرکے عہدے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔عمران خان سے پہلے آکسفورڈ کے الیکشن کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا۔عمران خان کی وجہ سے یہ الیکشن اب عالمی الیکشن بن گیا ہے اورپوری دنیا میں اس کا چرچاہونے لگا ہے۔‘‘ برلاس صاحب قائد کی محبت میں اتنا آگے بڑھ گئے اور والہانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماگئے کہ عمران خان کو چانسلربنانے کے لیے گورے اس قدر جلدی میں ہیں کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن عمران خان کا نام سنتے ہی ان کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں اور انہوں نے عمران خان کی الیکشن مہم کی ذمہ داری بھی لے لی ہے‘‘مظہربرلاس صاحب کے تعارف کے لیے اس وقت صرف اتنا ہی کہ وہ عثمان بزدار کے دورمیں پنجاب حکومت میں بہت ہی ’’اندر‘‘تک ’’اِن ‘‘ تھے۔
عمران خان آکسفورڈ کے الیکشن میں گئے تو مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے خان صاحب کی بنائی ہوئی کڑوی ’’دوائی‘‘ کا ذائقہ انہیں ہی چکھانے کا فیصلہ کیا اورآکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک پٹیشن کی اور ہزاروں ای میلز بھی آکسفورڈ کو بھیجی جارہی ہیں۔برطانیہ کے اخبار عمران خان صاحب کے ’’ماضی‘‘ کے دفتر کھول کربیٹھ رہے ہیں تو پی ٹی آئی اور خان صاحب کو یہ دوائی بہت کڑوی لگ رہی ہے ۔مظہربرلاس صاحب کو بھی ن لیگ کی اس ’’حرکت ‘‘ پر بہت غصہ ہے لیکن مجھے وہ حکیم یاد آرہا ہے جو اپنے دواخانے پرآنے والے معمولی بیمار مریضوں کو بھی انتہائی کڑوی دوادیتاتھا۔اس کے شاگرد نے پوچھا کہ استاد دوائی کڑوی نہ بھی بنائی جائے تو کام چل سکتا ہے پھر ایسی حرکت کیوں؟ اس پرحکیم کھل کرہنستا اور کہتا کہ جتنی دوا کڑوی ہوگی لوگ اتناہی بڑا حکیم مانیں گے اور کونسا یہ دوا ہم نے کھانی ہے۔پھر ایک دن حکیم صاحب خود صاحب فراش ہوگئے ۔اس کے شاگرد نے انہیں حکیم صاحب کی بنائی ایک کڑوی دواپلادی ۔حکیم صاحب نے اپنی دوائی کا ذائقہ چکھا تو بستر سے نیچے گرگئے۔آنکھیں سرخ لال اور شاگرد کو گالیاں دینے لگے کہ یہ دوائی کہاں سے لائے ہو ۔شاگرد نے کہا استاد یہ وہی دوائی ہے جو آپ روزانہ مریضوں کو دیتے ہیں اوران پر ہنستے بھی ہیں۔اس دن کے بعد حکیم صاحب نے سبق سیکھا اورکڑوی دوائی بنانا بند کردی لیکن ہمارے حکیم کپتان صاحب بھی اپنی دوائی چکھنے کے بعد کوئی سبق سیکھیں گے؟ کیا وہ پاکستان کے اندرونی معاملات کو اسی ملک میں سیاسی طورپرحل کرنے کی روش اپنائیں گے یا پھر اسی طرح ملک کو عالمی سطح پربدنام کرنے کا مشن جاری رکھیں گے؟۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.