اِک سمت میں یہود ہیں اِک سمت میں ہنود

37

مسلم دنیا کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل گزشتہ کئی روز سے مغربی کنارے پر چڑھ دوڑا ہے۔ غزہ پر بمباری تو گویا اُس کا حق ہے جس سے کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔ امریکا کی مکمل حمایت اور اسلحے کی مسلسل فراہمی سے اسرائیل غزہ پر 70 ہزار ٹن بم گرا چکا ہے۔ اب باری ہے لگے ہاتھوں مغربی کنارے اور بیت المقدس کے گرد و نواح کی۔ امریکا پوری ڈھٹائی سے ہمنوا ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے اِس نئی مہم پر شہریوں اور املاک کو نشانہ بنانے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کو۔ (ورنہ ان کے عوام دھاڑنے لگتے ہیں ان پر۔) وہی غزہ والے مناظر ہیں۔ گولیوں سے چھلنی دیواریں، تباہ حال گھر، کنکریٹ بلاکس کے ڈھیر۔ بجلی پانی منقطع، سڑکوں پر دندناتی اسرائیلی قابض فوج کی گاڑیاں مگر شہریوں کا عزم غزہ والوں جیسا ہی ہے۔ جنین میں شہادت پانے سے چند لمحے پہلے مجاہد کی ویڈیو۔ ھمام حشاش کی! گولی لگنے کے بعد گھر والوں کو ایمان افروز الوداعیہ صبر کی تلقین قرآنی آیات کے ذریعے۔ والدین کی شکرگزاری اور شہادتوں کی اُمید پر شاداں و فرحان، کلمہ پڑھتا رخصت ہوگیا۔
جنین سرکاری ہسپتال پر پانی کے ٹرک جانے سے روک دیے گئے۔ اسلامی جہاد اور حماس کمربستہ ہیں۔ اسی دوران غزہ سے 6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ملی ہیں۔ حماس کے مطابق یہ اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے ۔ اسرائیل کی سب سے بڑی یونین نے جنگ بندی معاہدہ نہ کرنے پر حکومت کے خلاف (2 ستمبرسے) ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ تل ابیب کی سڑکوں پر ڈیل کے حق میں ہزاروں نعرہ زن نکل آئے۔ نیتن یاہو کے گھر اور پارٹی دفتر کا گھیرائو کرلیا۔ مغربی کنارے پر اسرائیلی حملے بارے یو این نمایندہ خصوصی کے مطابق یہاں اسرائیل کی موجودگی غیرقانونی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے 20 سال پہلے ہی یہ طے کردیا۔دراصل امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ کی یہ جنگ، اس پر مغربی ترقی یافتہ ممالک، بے شمار انسانی حقوق کے ادارے، انصاف کی دعوے داریاں اور اس کے علیٰ الرغم اتنے بھاری جنگی جرائم کا ارتکاب ناقابل فہم اور شرم ناک ہے۔ زندگی کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو شکاگو کی اس معصوم دردمند بڑھیا کو دیکھئے۔ فلسطینی جھنڈا اٹھائے لاٹھی ٹیکتے، امریکا کو اسرائیل کی مدد سے روکنے کا بینر لیے لشٹم پشٹم مظاہرے میں شریک تھی۔ لاٹھی گرگئی۔ پولیس نے مدد دینے کی بجائے دھکا دے کر گرا دیا۔ مظاہرین نے اسے اٹھایا، لاٹھی تھمائی، شکر گزار ہوکر پھر چل پڑتی ہے!سارے حقوق، انصاف کے نام نہاد اداروں پر یہ دردمند بڑھیا بھاری ہے!
ہمارے ہاں مون سون کی بارشوں سے پورے ملک میں غرقابی، لینڈسلائیڈنگ، حادثات کی یلغار عوام اور ملکی معیشت کے لیے امتحان ہے۔ بلوچستان میں 54 افراد کا قتل، ریلوے پل گاڑیاں تباہ کرنے کو پورے صوبے میں پھیل کر قوم پرست بلوچ (سرپرست بھارت و دیگر دشمن قوتیں ہیں) ابتری پھیلا رہے ہیں۔ ’’را‘‘ کا کردار پس پشت اور علیحدگی پسندی، 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بھارتی منصوبہ بندی کی تاریخ یاد دلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ یہ حکمرانوں کی حکمت و تدبر اور صبر و تحمل، معاملہ فہمی سے حالات سدھارنے کا امتحان ہے۔
معاشرتی سطح پر آئے روز ایک کہانی مستقل چلتی ہے۔ لڑکیوں کا گھروں سے شادی کے جھانسے، ملازمت کی لالچ یا دوستی کے عنوان سے لڑکوں کے ساتھ چل دینا۔ نتیجہ سب جانتے ہیں۔ یکم ستمبر، لاہور کی لڑکی کی شادی کے وعدے پر تنہا شیخوپورہ لڑکے کے ساتھ چل دی۔ وہاں لٹی اور پھر پولیس، کچہری، عمر بھر کے لیے گھنائونا داغ اور خاندان زندہ درگور۔ کیا لڑکی، اس کے والدین کلیتاً بری الذمہ قرار دیے جاتے رہیں گے ایسے ہولناک واقعات میں؟ ایسی ہی ایک اور لڑکی لاہور سے فیصل آباد دوست سے ملنے گئی، وہاں دوست اور اس کے دوستوں نے اسے روند ڈالا۔ نوجوانوں کی بدچلنی کے اسباب میں ترقی پسندی، روشن خیالی، موبائل اور اختلاط ہے جو پرویز مشرف کے دور میں ضابطے سے پھیلائے گئے۔ لڑکیاں اور خاندان کیا صرف ایف آئی آر کٹواتے، برا بھلا کہتے یا عورت مارچ میں مداوا تلاش کریں گے؟ یا بیٹیوں کا وقار، تقدس اور اُن کے تحفظ کے ضمن میں اپنی ذمہ داری بھی نبھائیں گے؟ تعلیم اور ملازمتوں کے نام پر چھوٹے شہروں، دیہاتوں سے بیٹیاں بڑے شہروں کے غیرمحفوظ ہاسٹلوں میں چھوڑ دی جاتی ہیں۔ حالات مجموعی طور پر بچیوں کے تحفظ کے حوالے سے مخدوش ہیں۔
بنگلادیش کے حالات کے حوالے سے ہم سردمہری اور بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ قوم تو آٹے دال، بجلی پیٹرول کے غموں میں ادھ موئی ہے۔ ان کے پیکج گورنر اسٹیٹ بینک کی طرح 40 لاکھ تنخواہوں اور مزید لاکھوں کی مراعات والے تو نہیں۔ (سینیٹ میں بتایا گیا) ججوں، جرنیلوں، سیاست دانوں کی دولت، اشرافیہ کے لامنتہا مالی حقوق، ایسے میں بنگلادیش کی فرصت کسے؟ حسینہ واجد کا انجام اور نیا انقلاب بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتا، تاریخ درست کرتا ہے۔ نیٹ پر جو رطب و یابس مشرقی پاکستان کے حوالے سے پائی جاتی ہے، پناہ بخدا…!! پاکستان روزِ اوّل سے اسلام دشمن قوتوں، ممالک کے نشانے پر رہا۔ سو جھوٹ کے پلندے کچھ عجب نہیں! آج نیا مضبوط بنگلادیش مشترکہ دشمن بھارت کے مقابل بالواسطہ ہمارے لیے باعث قوت ہے۔ پاکستان نظریاتی بنیاد پر وجود میں آیا۔ آج بھی باہمی احترام و محبت کے ساتھ (بھارت کے تابع رہنے سے) آزاد بنگلادیش نظریے کی طرف بتدریج لوٹ رہا ہے تو یہ ہر محب وطن (وطن کی بنیاد کلمہ ہے یہاں) پاکستانی کے لیے باعث راحت ہے۔
پاکستان ٹوٹنے میں مجیب الرحمن اور مکتی باہنی کا کردار خود بنگلادیش کے قومی انسائیکلوپیڈیا کی زبانی بنگلاپیڈیا میں درج ہے: ’’مارچ 1971ء کے اوائل ہی سے مکتی باہنی شہروں، دیہاتوں میں متحرک ہوچکی تھی۔ 12 اپریل 1971ء کو کرنل عثمانی نے سلہٹ ہیڈکوارٹر میں بنگلادیش افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کمان سنبھالی۔ 11-17 جولائی کے درمیان کلکتہ میں سیکٹر کمانڈرز میٹنگ میں جنگ کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔ ڈھاکا یونیورسٹی طلبہ کی ’سنگرام پریشاد‘ کا مرکز تھی۔ تمام یونیورسٹیوں میں یہ پھیل چکی تھی۔ قرار پایا کہ دشمن (پاکستانی فوج) کے خلاف ملٹری آپریشن ہوں گے، گوریلے حملوں کے لیے بھیجے جائیں گے، صنعتیں بند کردی جائیں گی، اُن کی بجلی کاٹ دی جائے گی، پاکستانیوں کو خام مال اور اشیا تیار کرنے، برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے مواصلاتی ذرائع میں رکاوٹ ڈالی جائے گی، دشمن فوج کو منتشر کرکے حملوں میں مارا جائے گا۔ نیوی (’بنگلا دیش‘ کی) اگست میں بن چکی تھی۔ پاکستانی بیڑوں پر کامیاب حملے کیے ائیرفورس نے 28 ستمبر سے کام شروع کر دیا تھا۔ پاکستانی مقامات پر 12 کامیاب حملے کیے دسمبر میں بھارتی حملے سے پہلے۔ اکتوبر 1971ء سے آزادی فوج نے بھاری حملے شروع کردیے۔ 3 دسمبر کو بھارت نے باضابطہ جنگ چھیڑ دی۔ ڈھاکا صرف دو ہفتوں میں آزاد ہوگیا۔ بنگلادیش کی 9 ماہ طویل آزادی کی جنگ مکمل ہوگئی۔ پاکستان نے 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالے تو بنگلادیشی افواج کی (کارروائی کی تقریب میں) گروپ کیپٹن اے کے خوند کرنے نمایندگی کی۔ ‘‘
یہ مختصر ترین چند نکاتی بنگلاپیڈیا نے پسِ پردہ حقائق (بھارت میں کی گئی تیاری بارے ) بیان کیے ہیں۔Sage Journal نے لکھا کہـ: ’’بھارت نے بنگلادیش کی جنگِ آزادی کو پاکستان توڑنے کا نادر موقع جانا کہ اس سے بھارت کی سرحد پر ایک طرف کمزور دشمن، دوسری طرف ایک دوست ہوگا۔ بنگلادیشی حکومت بھارت کے تابع ہوگی اور بھارت کے لیے تجارتی مواقع بڑھانے کا سبب بنے گا۔ نہرو کا گریٹر انڈیا کا خواب پورا ہوگا۔ ‘‘ اندراگاندھی نے فخریہ کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ سمندر میں غرق کردیا۔ آج نیا بنگلادیش تن کر بھارت کے مقابل کھڑا ہے اور بھارت کی 53 سالہ محنت بھی غرق ہوگئی! اس وقت بھی مولانا بھاشانی نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی فوج نے بنگلادیش سے (1971ئ) اسمگلنگ میں ہتھیائے اموال 6 ہزار کروڑ ٹکا بھارت بھجوائے! ہمیں بلوچستان پر متوجہ رہنا ہے! جنوری 1972ء میں ڈھاکا میں مجیب الرحمن نے عوام سے خطاب میں کہا: ’میں پچھلے 24 برسوں سے پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے لیے کام کرتا رہا تھا۔‘ اور ہم بے خبر رہے!
دونوں ہی زرپرست ہیں، دونوں ہی جورمست
اِک سمت میں یہود ہیں، اِک سمت میں ہنود

تبصرے بند ہیں.