پچھلے کچھ مہینوں سے پنجاب حکومت کے عوام دوست انقلابی اقدامات کی جہاں سب تعریف کر رہے تھے، وہیں پی ایم ایل این کے سیاسی کارکنان و ممبران اسمبلی یہ شکایت بھی کر رہے تھے کہ ان کی بات کوئی نہیں سن رہا۔ کسی سطح پہ بھی ان کی قیادت تک رسائی نہ ہے اور نتیجتاً پارٹی کے دیرینہ کارکنان اور ان کے حلقوں کے مسائل کے حل کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی۔ ایسی صورت میں یہ خلیج بڑھتے جانے سے مسائل کا بڑھنا بھی قدرتی امر تھا۔ کارکنان، نظر انداز کیے جانے پہ جہاں مختلف سیاسی پلیٹ فارمز پہ اس بات کا برملا اظہار کرتے نظر آئے وہیں وہ اپنے قائد میاں نواز شریف صاحب سے ملتمس رہے کہ وہ دوبارہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں اور ہفتہ میں کم از کم ایک دن کارکنان کے لیے وقف کریں۔
پارٹی کے نظریاتی کارکنان میں بے چینی اس وقت مزید بڑھی جب مسلم لیگ کی صدارت تو میاں نواز شریف صاحب نے قبول کر لی لیکن صحت کی مکمل بحالی تک پارٹی معاملات کو دیکھنا موخر کر دیا۔ ملکی سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پہ صحیح ہے کہ اس وقت پارٹی کو اپنا ووٹ بینک قائم رکھنے اور پی ٹی آئی ایسی فاشسٹ جماعت سے مقابلے کے لیے اپنے کارکنان کا ہاتھ تھامنا ہو گا انہیں مضبوط کرنا ہو گا تا کہ وہ بنیادی سطح پہ فاشسٹ جماعت اور اس کے ملک دشمن نظریات سے قوم کو آگاہ کر سکیں اور اگلی نسلوں کو اس کے مضر اثر سے بچا سکیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے اور ہو گا جب پہلے درجے کی قیادت ان سے براہ راست رابطہ رکھے گی اور خود ان کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
اس ضمن میں اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے قائد مسلم لیگ ن اور میڈم وزیر اعلیٰ صاحبہ نے پنجاب میں سینئر منسٹر پنجاب میڈم مریم اورنگزیب صاحبہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ممبران اور ورکرز کو وقت دیں اور ان کے مسائل کے ممکنہ حل میں انکی مدد فرمائیں۔ جب یہ سنا تو کچھ ہمت بندھی کہ پارٹی اور قیادت نے اس ضمن میں رابطوں کے فقدان کو پیش نظر رکھتے ہوئے عملی قدم اٹھایا ہے۔ پھر کچھ دوست سیاستدان اور کارکنان سے اس بابت بات کی تو انہوں نے بتایا کہ واقعی میڈم سینئر منسٹر باقاعدگی سے ہر جمعرات کو پانچ چھ گھنٹے کارکنان اور ساتھی ممبران کے ساتھ گزار رہی ہیں۔ کچھ مزید معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ان بیٹھکوں سے حوصلہ افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ میڈم سینئر منسٹر صاحبہ کی طرف سے ممبران کے رکے ہوئے کاموں کا نوٹس لیتے ہی انتظامیہ ایکٹو ہو جاتی ہے اور موقع پہ مسائل کا فوری حل تلاش کر لیا جاتا ہے۔
اسی طرح میڈم پارٹی کے دیرینہ ساتھیوں، ورکروں کو بھی بہت عزت و احترام دے رہی ہیں اور ممبران اسمبلی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو بھی ترجیہی بنیادوں پہ حل کرانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ یقینا بزداری دور کی سالہا سال کی نااہلی کو چند ہفتوں یا مہینوں میں ختم کرنا ناممکن ہے لیکن میڈم سینئر منسٹر صاحبہ پوری جانفشانی سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ کل گوجرانوالہ سے پارٹی کے ایک دیرینہ ساتھی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے سالہا سال سے رکے ہوئے کام سینئر منسٹر کے ایک فون سے حل ہو گئے۔ وہ قیادت کی طرف سے اٹھائے گئے اس قدم پہ انتہائی خوش نظر آئے۔ کہنے لگے کہ میں میاں صاحب کے وزارت عظمیٰ سے چلے جانے کے بعد سے تقریباً سیاست سے قطع تعلق ہو چکا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ میڈم وزیر اعلیٰ اور میڈم سینئر منسٹر کے ٹیم ورک نے پارٹی کارکنان میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور مجھ جیسا ادنیٰ کارکن بھی پھر پارٹی کا پرچم اٹھائے میدان میں آنے پہ مجبور ہو گیا ہوں۔ وہ میڈم سینئر منسٹر کے عوام دوست رویے سے بھی بہت خوش نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈم ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتی ہیں۔ ہر ایک کو بھائی، بہن، انکل کہ کر مخاطب کرتی ہیں اور ان کے اس طرز کلام نے کارکنان میں اپنائیت کا احساس کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ ایک اور دوست جو صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں انہوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے حلقے کے کاموں کی لسٹ لیے وہاں پہنچے تو وہ کچھ شرمندہ شرمندہ سے تھے کہ انہوں نے ایک بہت لمبی لسٹ پکڑ رکھی تھی۔ لیکن انہیں بھی اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب میڈم نے پوری لسٹ میں دیئے گئے ہر کام پہ یا تو فوری ایکشن لیا یا متعلقہ محکموں سے رپورٹ طلب کر لی۔ کہنے لگے جب میں اٹھنے لگا تو میڈم بول پڑیں۔ ’’بھائی آپ نے دوبارہ ضرور آنا ہے تا کہ ہم آپ کی لسٹ پہ ہوئی پراگریس کو مانیٹر کر سکیں‘‘۔
یہ سب سن کر اب راقم یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن بھی وہ پارٹی بن گئی ہے جس کی اعلیٰ قیادت نے اپنے کارکنان اور ممبران کو ان کا جائز مقام دلانے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اگر پارٹی قیادت اور میڈم سینئر منسٹر صاحبہ اسی طرح کارکنان اور ممبران سے ملتی رہیں اور ان کے مسائل و مشکلات کے حل کی عملی کوششیں ہوتی رہیں تو پھر مسلم لیگ ن کو صوبے اور ملک کی سب سے بڑی عوامی جماعت بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور مد مقابل سیاسی جماعتیں اپنے آپ میں سکڑ کر رہ جائیں گی۔
آخر میں اس ضمن میں کارکنان و ممبران کو اپنے قائدین میاں نواز شریف اور میڈم مریم نواز شریف صاحبہ کا بھی مشکور ہونا چاہئے کہ جنہوں نے مریم اورنگزیب صاحبہ جیسی کہنہ مشق اور زیرک خاتون سیاستدان کا انتخاب کیا اور پھر انہیں میڈم مریم اورنگزیب صاحبہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے کہ جو اپنی بے حد مصروفیات کے باوجود اپنے پارٹی کارکنان اور ممبران کے لیے مسلسل وقت نکال رہی ہیں اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔ یقینا ان کی طرف سے پارٹی ممبران اور ورکرز کو ملنے والی بے پناہ عزت نے عام کارکنان کو ایک دفعہ پھر پارٹی اور قیادت سے قریب کر دیا ہے اور مسلم لیگی ورکر ایک بار پھر ایکٹو ہو گیا ہے۔ شاباش میڈم سینئر منسٹر۔
تبصرے بند ہیں.