وزیرِ اعظم پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنا روایتی مٔوقف کہ ہم نے دن رات ایک کر کے حالات بدلے ہیں اور یہ کہ اپنی سیاست کی قربانی دیکر ریاست بچائی ہے۔ بقول ان کے مہنگائی جو 37 فیصد کی حد کو چھو چکی تھی اس کو سنگل ڈیجٹ یعنی 9.6 فیصد پر لے آئے ہیں۔ اگر زمینی حقائق کی بات کریں تو اشیائے ضروریہ، خدمات اور دیگر تمام اشیاء بشمول تیل، بجلی، گیس تمام کے نرخ بدرجہ اتم اسی مقام پر فائز ہیں جہاں گزشتہ ماہ تھے اور عوام کے مصائب کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں۔ حکومت اندرونی، بیرونی اداروں اورا یجنسیوں کی رپورٹوں کے بجائے عام آدمی کی مشکلات سے مہنگائی کا اندازہ لگائے جو اس وقت عملاً خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت اعداد و شمار کا پرچار ضرور کرے مگر زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھ کر۔ عوام کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے ان کے صبر کو نہ آزمائے ۔
آج تک ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ وطنِ عزیز میں حکومت کے مطابق بجٹ ہی صرف اعداد شمار کا گورکھ دھندا ہوا کرتا تھا جس کے ہم اب عادی ہو چکے ہیں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے مہنگائی کے اشاریوں میں کمی کے حوالے سے بھی اعداد و شمار کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پتہ نہیں کون کہتا ہے کہ مہنگائی 37 فیصد ہے جب کہ اگر آپ مارکیٹ میں اشیاء کے نرخ معلوم کریں تو مہنگائی 100 فیصد سے بھی زیادہ ہے بلکہ کچھ صورتوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ یہ کیا اعداد شمار کا گورکھ دھندا ہے بازار جائیں تو نرخ کہیں زیادہ جب حکومتی اعداد و شمار دیکھیں تو مہنگائی اس سے کہیں کم۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کا مہنگائی کے اعداد و شمار کو شمار کرنے کا کوئی مختلف کلیہ ہے۔ غریب آدمی کے حساب سے مہنگائی کی شرح کو پرکھنا ہے تو پھر صرف ان اشیاء کی قیمتوں کا ہی موازنہ کیا جا سکتا ہے جو صرف روز مرہ کے استعمال کی ہیں ان میں لگژری اشیاء کے نرخ کا کچھ لینا دینا نہیں۔ بیچارہ غریب جو اپنی دو وقت کی پیاز چٹنی، روٹی پوری کرنے سے قاصر ہے وہ ان آسائشات کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے جیسے غریب ملک کے حکمران اتنے دولت مند ہیں کہ وہ تو سونے کے نوالے توڑنا شروع کر دیں انہیں وہ بھی سستے ہی لگیں گے ،اگر اس وقت ملکی اقتصادی کیفیت کا ذکر کیا جائے تو روز افزوں مہنگائی آج ہمارے ملک کے سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس سے لوگوں کی زندگی دو بھر ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کے گھریلو بجٹ کا سارا تخمینہ فیل ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا سکھ چین غارت کیا ہوا ہے، ہر اگلے روز اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ آٹا، دال، چاول، گھی، تیل، گوشت، سبزی غرض روز مرہ استعمال کی کوئی چیز بھی اب عوام کی دسترس میں نہیں ہے۔ غریب طبقہ تو اس سے پریشان ہے ہی متوسط طبقہ بھی بری طرح متاثر ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ایک لوئر مڈل کلاس بھی معرضِ وجود میں آ گئی ہے۔ وزیرِ اعظم نے فرمایا ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان وسائل پر پوری طرح متمول طبقے کا کنٹرول ہے یعنی قدری وسائل پر جو کہ عوامی اثاثہ جات ہیں چند لوگوں کی اجارہ داری ہے۔
جناب وزیرِ اعظم آپ نے فرمایا کہ ان کی پارٹی نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز حضورﷺ سے کچھ دیر بعد مسلمانوں کے بڑے متمول حکمران گزرے ہیں ایک بار قوم پر مشکل پڑی اور قحط ناز ل ہو گیا تو انہوں نے اپنی قیمتی اشیاء فروخت کر کے عوام میں غلہ تقسیم کر دیا اس طرح معیشت پٹڑی پر واپس آ گئی تو کیا آپ اور آپ کے رفقائے کاروں نے بیرون اور اندرونِ ملک اپنے اثاثے جن کی مالیت کے بارے کسی کو اندازہ نہیں ہے بیچ کر ملک میں لے آئے ہیں۔ آپ نے تو بالکل بھی ایسا نہیں کیا ہے تو پھر آپ نے ریاست بچانے کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے جب کہ فیصل آباد میں نہ صرف بڑے صنعتی یونٹ بلکہ چھوٹے یونٹس کا تو شمار ہی نہیں ہے کہ روز بروز کتنے بند ہو رہے ہیں اور بیروزگار ہونے والے افراد اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جن ملازمین کو کسی بھی وجہ سے فارغ کیا جا رہا ہے ان کے گھروں کا چولہا کیسے چلے گا؟ فارغ ہونے والے ملازمیں اگر سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہو جائیں گے۔
عوام تو مہنگائی میں کمی کے دعوؤں کو تب ہی تسلیم کریں گے جب بنیادی اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کمی واقع ہو گی۔ مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے مرہونِ منت عوام کی جو درگت بنی ہے وہ حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے۔ معاشی ریٹنگ اور مہنگائی میں کمی کے اعداد و شمار بے شک درست ہو سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی اب بھی اپنے پورے عروج پر ہے، ہر شے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ بد ترین مہنگائی بے رحم پنجے گاڑے ہوئے ہے اور عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ صرف اداروں کی رپورٹوں پر بغلیں بجانے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
تبصرے بند ہیں.