عالمی رہنما بننے کی کوشش

12

ایسے حالات میں جب چین کے بڑھتے رسوخ سے بھارت کو خطے میں سنجیدہ نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں نریندرامودی نے چیلنجز بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی رہنما بننے کی کوششیں شروع کردی ہیں جس میں کامیابی کے امکانات کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنامشکل ہے بظاہر ناکامی کاامکان قوی ترلگتاہے یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے ملک کو مسائل کے گرداب میں پھنسا چھوڑ کر دیگر ممالک میں ثالثی کرانے کی روش پر سفرشروع کردیا جائے اِس حکمتِ عملی پر تجزیہ کار حیران ہیں اور اندرونِ ملک زوال پذیر مقبولیت کو سنبھالا دینے کی کوشش کہتے ہیں تو کچھ غیرجانبدارانہ پالیسی کو دوبارہ اپنانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس کے تحت بھارت سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے چین کی سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال کرانے کی سنجیدہ کوششیں نتیجہ خیزثابت ہوئیں جس سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے جاری کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ خطے میں چین کو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کی حیثیت سے قبول کیے جانے کا تاثر گہراہوا کیونکہ بھارت خود کو چین کا مدِ مقابل تصور کرتا ہے اسی لیے شاید مودی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نہ صرف بھارت کاعالمی تشخص بہتر بنانے کا باعث بنے بلکہ دنیا مودی کو ایک عالمی رہنما کے طورپر بھی قبول کرلے۔

سابقہ حکمرانوں کی طرح مودی بھی بھارت کا غیر جانبدار تشخص بحال کرناچاہتے ہیں چین کے ساتھ سرحدی و تجارتی مسائل کے باوجود چین سمیت عالمی طاقتوں سے ہموار اور خوشگوارتعلقات رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن اب ماضی کی طرح بھارت کی سب سے بنا کر رکھنے کی پالیسی کارگرنہیں رہی وہ مودی کی حکمرانی میں جس راہ پر چل نکلا ہے اب واپسی کافی مشکل ہو گئی ہے اگر روس اور امریکہ سے تعلقات میں توازن رکھنا ہے تو اُسے امریکی قیادت میں ہونے والے جاپان اور آسڑیلیا سے ایسے معاہدوں کو خیربادکہناپڑے گا جن سے بھارت پر روس مخالف اتحادکا حصہ ہونے کی چھاپ گہری ہو ئی ہے مگر خطے میں چین کا متبادل ہونے کا دعویدار یہ ملک ایسے کسی اقدام کا متحمل نہیں ہو سکتا ااِس لیے مزیدعرصہ بیک وقت روس اور امریکہ کا اعتماد حاصل رکھنا ناممکن ہوتاجارہا ہے عالمی پابندیوں کی وجہ سے فی الحال تو روس نے بھارت کے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف جھکائو کو نظر انداز کر رکھا ہے لیکن جلد یا بدیر فیصلہ کُن نوبت آسکتی ہے روس اور چین کی فروغ پذیر شراکت داری کے تناظر میں زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکی کیمپ میں خود کو زیادہ آسودہ محسوس کرے اِس بناپر روس سے موجود قُربت سے دستکش ہونا بعیدازقیاس نہیں اگر ایسا ہوتاہے تو نہ صرف غیر جانبدارنہ تشخص بحال کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں بلکہ عالمی رہنما بننے کی بھاگ دوڑ بھی بے ثمر ہونایقینی ہے۔

روسی صدر پوٹن سے گلے ملتے ہوئے گرم جوشی دکھانے پرمودی سے امریکہ اور اُس کے مغربی حلیف ناخوش ہیں اور انہیں اِس حرکت پر ہدفِ تنقیدبنایا ہے شاید اسی لیے چند ہفتے بعدہی مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کرانے کی خواہش ظاہرکردی اورپھر بڑے طمطراق سے صدر زیلنسکی سے بھی گلے جا ملے مگر اِس ملاقات کو جنگ بندی کرانے کے طورپر تسلیم کرنا مشکل جبکہ امریکی اعتماد بحال رکھنے کی کاوش کہہ سکتے ہیں دراصل کئی دہائیوں سے بھارت کی پالیسی ہے کہ سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کی جائے جہاں سے جوفائدہ ملتا ہے حاصل کرنے میں دیرنہ کی جائے لیکن نفع کو ترجیح دیتاہے روس اور یوکرین سے تعلقات کو دستیاب اعدادو شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور بھارت کی باہمی تجارت دس ارب ڈالر کے قریب ہے جسے 2025تک دونوں ممالک تیس ارب ڈالرتک لے جانا چاہتے ہیں دونوں باہمی سرمایہ کاری کا حجم پچاس ارب ڈالر کرنے کے آرزو مندہیںنیز بھارت کوسب سے زیادہ ہتھیاربرآمد کرنے والا ملک آج بھی روس ہے اور وہ اپنی ساٹھ فیصد دفاعی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے علاوہ ازیں روس اپنے دیرینہ حلیف بھارت کو تیل فراہم کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے لیکن یوکرین اور بھارت کا تجارتی حجم محض چارارب ڈالر ہے اور یوکرین سے محدودپیمانے پر بھارت دفاعی سازو سامان جیسے گولہ بارو،انجن اور ٹیکنالوجی لیتا ہے ۔ پوٹن کو گلے لگانے کے چند ہفتے بعد ہی یوکرین کے صدر کو گلے لگا کر مودی نے دراصل امریکہ اور مغربی ممالک کے تحفظات دور کیے ہیں جس میں وہ کِس حد تک کامیاب رہے؟ اِس سوال کاجواب حاصل کرنے کے لیے جلدبازی کی بجائے انتظاربہتر ہے ہاں اِتناکہہ سکتے ہیں کہ مودی نے روس اور یوکرین کے ساتھ بیک وقت تعلقات رکھنے اور دفاعی حوالے سے توازن لانے کی کوشش کی ہے ۔

عالمی رہنما بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہمسایہ ممالک کے تحفظات دور کیے جائیں تاکہ وہ ہمسائیگی میں خود کو محفوظ خیال کریں نیز جارحانہ حکمتِ عملی کی بجائے امن پسندانہ طرزِ عمل اپنایا جائے لیکن مودی کی حکمرانی میں بھارت جنوبی ایشیا میں ایک ایسا ناقابلِ اعتبارملک بن گیاہے جس سے کوئی ہمسایہ خوش نہیں سری لنکا سے اُٹھنے والی بھارت مخالف لہر نیپال ،مالدیپ سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش تک جا پہنچی ہے مگربھارت نے نفرت کی لہر کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی ہمسایہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اعتمادسازی کے اقدامات کی ضرورت محسوس کی ہے ۔

ممکن ہے مودی کا خیال ہو کہ بھارت کاروس اور یوکرین سے بیک وقت قریبی دوطرفہ تعاون ہے اِس لیے اگر وہ ثالثی کی کوشش کریں گے تو دونوں ممالک پُرجوش خیر مقدم کریں گے اِس کے باوجود وہ امن کوششوں کے لیے پہل بھی نہیں کرنا چاہتے نہ ہی دونوں ممالک نے مودی کی حوصلہ افزائی کی ہے شاید وہ چاہتے ہیں دونوں ملک خودہی لڑائی چھوڑ کر جنگ بندی کا سہرابھی اُن کے سرپر رکھ دیں البتہ دورے کے فوری بعد مودی کا صدر پوٹن اور صدرجوبائیڈن کو ٹیلی فون کرناثابت کرتا ہے کہ وہ روس اور امریکہ دونوں کو بھاگ دوڑ سے مطمئن کرنے کی آرزو رکھتے ہیں مگر تجزیہ کار متفق ہیں کہ مسلم دشمنی کے سوا مودی ہر معاملے میں گومگوں کا شکار ہیں اگر وہ ایک قدم اُٹھاتے ہیں تو اگلے ہی لمحے پیچھے ہٹ جاتے ہیں عالمی رہنمااِتنا کمزور نہیں ہو سکتا بلکہ عالمی رہنما تو اعتماد سے قدم بڑھاتا اور دلیل سے قائل کرتا ہے مگر مودی میں اعتماد اور دلیل دونوں کا فقدان ہے اِس لیے عالمی رہنما جیسا کٹھن اور دشوار مرحلہ توحاصل ہوناممکن نہیں البتہ مودی کی کوششوں کو سب سے فائدہ اُٹھانے کی بھارتی پالیسی کااحیاکہہ سکتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.