گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور ڈریس کوڈ کی بحث!!

214

آج کل پنجاب کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتیاں زیر غور ہیں۔ اس ضمن میں کوئی نہ کوئی خبر میڈیا پر زیر گردش رہتی ہے۔ تاہم کچھ دنوں سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی مسلسل خبروں اور تبصروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ وجہ یہ کہ جی ۔سی۔یو کی وائس چانسلر ڈاکٹر شاذیہ بشیر نے طلبا و طالبات کے لباس یا پہناوے کے ضمن میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ اس ہدایت نامے کے مطابق جامعہ میں زیر تعلیم بچے اور بچیوں کیلئے لازم ہے کہ وہ جامعہ کی حدود میں،انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ ڈریس کوڈ کی پابندی کریں۔ بصورت دیگر ان سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی۔ ہدایت نامے کے مطابق طلباو طالبات کے جینز اور ٹی۔شرٹس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ طلبا ء کیلئے لازم ہے کہ وہ ڈریس پینٹ اور شرٹ پہنیں ۔ طالبات کیلئے ضروری ہے کہ وہ modest clothing یعنی باوقار یا مہذب لباس زیب تن کریں اور دوپٹہ اوڑھیں۔

جب سے یہ ہدایت نامہ سامنے آیا ہے ، ایک مخصوص طبقہ فکر نے میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ہیجان بپا کر رکھا ہے۔ یہ طبقہ معترض ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کیونکر نوجوان بچے بچیوں پر لباس کے حوالے سے پابندی عائد کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ طالب علموں کی شخصی آزادی اور حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ کے حق میں فتوے جاری ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس لباس کے وہ وہ فوائد بیان ہو رہے ہیں جو غالباً مغربی اقوام کو بھی نہیں معلوم ہوں گے۔ دوپٹہ اوڑھنے کے نقصانات کا بیان ہو رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ دوپٹے کے استعمال کو پاکستان کے گرم موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی دوپٹے ، پردے یا حجاب کا ذکر آتا ہے۔ ہمارے ہاں کا نام نہاد لبرل طبقہ نہایت مضطرب ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے ہم نے دیکھا ہے کہ دوپٹے وغیرہ کی حمایت کریں تو یہ طبقہ لٹھ لے کر آپ کے پیچھے پڑ جائے گا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو دوپٹے اور حجاب کا کھلے عام مذاق اڑاتا ہے۔دینی یا سماجی اقدار کا حوالہ دیں تو یہ طبقہ چڑ جائے گا۔ ان کے نزدیک آزادی کا مطلب بے مہار آزادی ہے۔ اس وقت بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔البتہ نہایت غنیمت ہے کہ ڈریس کوڈ کا حکم نامہ ایک معروف انگریزی میڈیم تعلیمی ادارے کی وائس چانسلر کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ یہ خاتون آسٹریا کی معروف جامعہ کی فارغ التحصیل ہیں۔ یہ ہدایت نامہ کسی مذہبی ادارے یا شخصیت کی طرف سے سامنے آیا ہوتا تو ناقدین اسے جہالت اور قدامت پرستی کا طعنہ دیتے ۔

اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود میں آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دوپٹے، حجاب ، اسلامی یا مشرقی روایات کے نفاذ کی بات ہو تو اس پر طوفان کیوں اٹھ کھڑا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کوئی تعلیمی ادارہ بچے بچیوں کیلئے مناسب لباس پہننے کی پابندی عائد کرتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کیا یونیورسٹی انتظامیہ نے کوئی غیر اخلاقی یا غیر شرعی ہدایت نامہ جاری کیا ہے؟ کیا یہ مخصوص طبقہ اس بات سے منکر ہو سکتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ کیا ہمارا مذہب اسلام ہمیں پردے اور حجاب کا حکم نہیں دیتا؟ کوئی تعلیمی ادارہ اگر نوجوان بچے بچیوں کو باوقار لباس پہننے کا پابند کرتا ہے تو اس میں آخر کیا برائی ہے؟ استاد کو یوں بھی روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے۔ کیا روحانی والدین اس بات کا حق بھی نہیں رکھتے کہ بچے بچیوں کو تعلیمی ادارے کی عمارت کے اندر رہتے ہوئے اخلاقیات کا پابند کرسکیں۔ میرا تعلق شعبہ تدریس سے ہے۔ سرکاری اور نجی جامعات میں میرا آنا جانا رہتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نوجوان طالب علموں سے میل جول اور رابطہ بھی ہے۔ اگرچہ بیشتر بچے بچیاں اپنے لباس او ر رویے میں اخلاقی حدود کی پابندی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود طالب علموں کی ایک قابل ذکر تعداد کے بارے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا لباس اور طرز عمل اسلامی اور مشرقی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بطور استاد میں بھی یہ ذمہ داری محسوس کرتی ہوں کہ تعلیمی ادارے کی حدود میں رہتے ہوئے ایسے بچے بچیوں کو نصیحت کی جائے۔ ادارے کی حدود سے باہر یہ ذمہ داری استاد کے بجائے والدین پر نافذ ہو جاتی ہے۔ غالبا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں بھی یہ بات محسوس کی گئی ہو گی جس کا نتیجہ ڈریس کوڈ کے نفاذ کی صورت سامنے آیا ہے۔
اس قصے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم موجود ہوتے ہیں ۔ خاص طو ر پر سرکاری تعلیمی اداروں میں زیادہ تر متوسط اور زیریں طبقے کے نوجوان زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر آگاہ ہوںکہ بہت سے طالب علم اور ان کے والدین نہایت مشکل سے چند ہزار کی فیس ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے بچیاں رنگ برنگے کپڑوں، جوتوں ، میک اپ وغیرہ کے اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ مقابلے کی فضا میں بہت سوں کو بہ امر مجبوری ا س ماحول کا مقدور بھر حصہ بننا پڑتا ہے۔ بہت سوں میں احساس کمتری بھی جنم لیتا ہے۔ اس صورتحال میں یونیفارم یعنی ایک جیسا لباس کیا اچھی روایت ہے۔اسی طرح سادہ اور باوقار لباس بھی ایک مثبت فیصلہ ہے۔یہ جملے لکھ رہی ہوں تو مجھے اپنی ایک پرانی شاگرد یاد آ رہی ہے۔ آج وہ بچی ایک نامور ادارے میں بڑی افسر ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ نہایت مفلسی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ میرے توسط سے اسے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں کچھ لیکچر ملے ، لیکن بہت جلد اس نے پڑھانا چھوڑ دیا۔میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اپنے سادہ حلیے کیساتھ اسے اس پرائیویٹ یونیورسٹی میں جاتے، طالب علموں اور اساتذہ کا سامنا کرتے نہایت شرمندگی اور احساس کمتری محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بات سن کر مجھے نہایت دکھ ہواتھا۔ خیال آیا تھا کہ جامعات کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کیلئے بھی یونیفارم مخصوص کر دیا جائے تو بہت سے لوگ شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

یقینا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ بظاہر اس میں کوئی برائی یا نقصان کی بات نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ اس فیصلے سے بہت سے بچے بچیاں غیر ضروری اخراجات اور احساس کمتری سے بچ جائیں گے۔لازم ہے کہ ہم تنقید برائے تنقید کا رویہ اپنانے کے بجائے، اس فیصلے کے مثبت پہلووں کو بھی ذہن میں رکھیں۔ یونیورسٹی کی حدود سے باہر یہ نوجوان اپنی مرضی اور پسند کا لباس پہن سکتے ہیں۔ سو یہ نکتہ قابل جواز نہیں کہ ڈریس کوڈ کے نفاذ سے ان کی آزادی اور حقوق سلب ہوں گے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ پر بھی لازم ہے کہ اس فیصلے پردفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے ڈٹی رہے۔ میری ذاتی رائے میں اس عمدہ فیصلے کی تحسین ہونی چاہیے اور تقلید بھی۔

 

تبصرے بند ہیں.