ایسی محبت سے ہم باز آئے!

53

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سردی کہاں پڑتی ہے لیکن اس بات کا ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ سب سے زیادہ سردی ہم پاکستانیوں کو ہی لگتی ہے۔ خاص طور پر اُن پاکستانیوں کو جن کا مزاج یا شجرہ نسب اپنے کریلے گوشت مارکہ ’’خاں صاحبوں‘‘ سے ملتا جلتا ہے جنہوں نے نیم سردیوں میں بھی سر پر ’’باندر ٹوپی‘‘ پہنی ہوتی ہے۔ گرمیوں کا طویل اور جان لیوا موسم اب ہفتوں کا مہمان ہے تھوڑا قبل از وقت سہی لیکن ایک لحا ظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سردیوں کی آمد آمد ہے۔ سردیوں کے موسم کے دیگر فوائد اور نقصانات بھی ہونگے البتہ ہمارے ہاں سردیوں کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ملک بھر کے لنڈے بازاروں میں انٹر نیشنل برانڈ کے رنگ برنگے سلے ان سلے کپڑوں کی بہار آ جاتی ہے۔ موجودہ ہوش ربا مہنگائی سے پہلے اگر آپ ایک امیر آدمی تھے اور اس سے پہلے آپ نے اب تک واقعی کبھی لنڈے بازار کا رخ نہیں کیا تو محض ہماری بات کی صداقت جانچنے کے لیے اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کی غرض سے ماسک لگا کر دو تین ہفتوں بعد ایک چکر ذرا لنڈے بازار کا ضرور لگائیں۔ ممکن ہے وہاں آپ کی ملاقات امپورٹڈ پینٹ کوٹ پہننے کے شوقین اپنے اُس دوست یا باس سے بھی ہو جائے جس کے انکل لندن میں رہتے ہیں۔ وہاں جا کر آپ اگر محض ذائقہ چکھنے کے لیے ہلکی پھلکی خریداری بھی کر لیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے بلکہ یہ خریداری آپ کو عملی طور پر اس بازار کا مزاج سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ البتہ ایک بات کے لیے ہم آپ کو ابھی سے خبردار کیے دیتے ہیں کہ ایک کے بعد اگر آپ نے دوسری یا تیسری بار بھی یہاں سے کچھ خریداری کر لی تو پھر جان لیں آپ کے منہ کو یہ ’’مے‘‘ بُری طرح لگ جائے گی۔ اس کے بعد یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اس بازار میں آئیں اور یہاں سے کچھ خریدے بغیر خالی ہاتھ واپس چلے جائیں بھلے آپ کو قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ آسان لفظوں میں آپ یہ سمجھ لیں کہ اپنی ہمت اور مضبوط قوتِ ارادی کے بل بوتے پر آپ ’’اُس بازار‘‘ سے اپنا تعلق توڑ لیں تو توڑ لیں مگر ’’اِس بازار‘‘ سے ایک بار اپنا ناتا جوڑنے کے بعد کسی شخص کا اس سے منہ پھیرنا مشکل ہی نہیں کسی حد تک نا ممکن بھی ہے۔ یہ وہ نشہ ہے جسے ایک بار لگ جانے کے بعد پھر خاندان، محلے اور دفتر میں لوگوں کی طرح طرح کی باتیں اور بدنامی کا خوف بھی آپ کو یہاں آنے سے نہیں روک سکتا۔ ہم نے بڑے بڑے خاندانی لوگوں کو بھی دن کے اجالے اور رات کی تاریکی میں یہاں منہ چھپائے ریڑھیوں سے مال چھانٹی کرتے دیکھا ہے اب تو ماسک نے ان کے لیے مزید آسانی پیدا کر دی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہر کوئی کاروباری بد حالی اور مندے کا گلہ کرتا دکھائی دیتا ہے غالباً لنڈا بازار ملک بھر میں واحد کاروباری جگہ ہے جو پوری طرح شاد و آباد ہے۔ اب کوئی نہ مانے تو الگ بات ہے لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت کو یہ اچھی طرح علم ہے کہ سوائے کھانے پینے کی اشیاء کے لنڈے بازار میں ضرورتِ زندگی کی تقریباً ہر شے نسبتاً سستے داموں مل جاتی ہے بس اس کے لیے آپ کو صاف ستھرے ’’پیس‘‘ کے حصول کے لیے چھانٹی خود کرنا پڑتی ہے۔ گمان ہے کہ جس رفتار سے ’’لنڈا انڈسٹری‘‘ ترقی کر رہی ہے وہ دن دور نہیں جب یہاں استعمال شدہ گوشت، سبزیاں، دالیں، چینی، انڈے، دودھ، ڈبل روٹی، برگر، پیزے اور کولڈ ڈرنکس جیسی کھانے پینے کی ’’امپورٹڈ‘‘ اشیاء بھی دستیاب ہوں گی۔ ان کی شکل کیا ہو گی اور گاہک ان کو کس طرح چھانٹی کرے گا اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ ایک وقت تھا جب لنڈا بازار صرف غریب اور سفید پوشوں کی آماجگاہ تھا مگر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اب بڑے بڑے طرم خانوں اور پردہ نشینوں کو بھی اس بازار میں لے آئی ہے جس سے غریب طبقے پر خاصے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کے حصے میں اب صرف بچا کھچا مال ہی آتا ہے۔ البتہ سفید پوش طبقہ ابھی تک یہاں اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور بڑی
حد تک اپنے نئے حریف کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دے رہا ہے۔ ویسے تو لنڈا بازار سارا سال ہی آباد رہتا ہے لیکن سردیوں کی پہلی بارش کے ساتھ ہی دو سے تین ماہ کے لیے لنڈے بازار میں خریداروں کی جو گہما گہمی دکھائی دیتی ہے وہ ہمیں سال کے باقی مہینوں میں یہاں نظر نہیں آتی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ من حیث القوم ٹھنڈ سے ہماری کس قدر جان جاتی ہے۔ پتا نہیں زیادہ سردی لگنا اچھی علامت ہے یا بُری لیکن اس سے ہمارے ذہن میں ایک مزے کا خیال آ رہا ہے کہ جس طرح ہر سال خوبصورتی کی بنیاد پر مس ورلڈ یا مس یونیورسل کا انتخاب ہوتا ہے اگر ایسا ہی کوئی عالمی مقابلہ سردی محسوس کرنے کی بنیاد پر منعقد ہو تو حالات و واقعات کے تناظر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہر برس فتح کا یہ تاج ہم پاکستانیوں کے سر پر ہی سجے گا۔ گو کرکٹ کے کھیل کی طرح اس میدان میں بھی ہمارا روایتی حریف ملک بھارت ہمیں فائنل مرحلے میں ’’ٹف ٹائم‘‘ دے سکتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمدللہ اس حوالے سے ہمارے پاس ایسا ایسا ’’کپکپی ٹیلنٹ‘‘ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر ہی ججوں کے اپنے دانت بجنا شروع ہو جائیں بشرطیکہ اُن کے یہ دانت اصلی ہوں۔ ہم لوگ چونکہ ایک جذباتی قوم ہیں اور عالمی سطح پر کسی بھی قسم کا اعزاز جیتنے والے اپنے ہیروز کو سر ماتھے پر بٹھانا بلکہ سر پر چڑھانا ہماری روایات کا حصہ ہے اس لیے ہر سال یہ اعزاز جیتنے سے ہمارے ہاں ایک آئینی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے کہ ہم ’’کپکپی ورلڈ کپ‘‘ جیتنے والے اپنے کس ہیرو کو کتنے عرصے کے لیے ملک کا وزیر اعظم بنائیں گے۔ دیگر ممالک بھی اس قسم کے کھیل تماشوں میں اپنے جوہر دکھانے والے ہیروز سے پیار کرتے ہونگے لیکن حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک ورلڈ کپ جیتنے والے اپنے ہیرو کو جو ’’سلامی‘‘ ہم نے دی ہے یا ہمارے بڑوں نے ہم سے زبردستی لی ہے اس کی مثال آپ کو پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ ’’سلامی‘‘ اب پوری قوم کے ساتھ ان بڑوں کے لیے بھی گلے کا پھندا یا بھاری بوجھ بن گئی ہے اور انہوں نے دبے لفظوں میں یا کھلے عام یہ کہنا شروع کر دیا ہے ’’ایسی محبت سے ہم باز آئے جو دل کو جلائے ستائے دکھائے‘‘۔ البتہ یہ بات ابھی تک واضح نہیںہے کہ ہمارے ان بڑوں نے یہ توبہ ہمیشہ کے لیے کی ہے یا محض وقتی توبہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.