گزشتہ برس لاہور ڈیفنس میں کم عمری میں ڈرائیونگ کی وجہ سے ایک دردناک ٹریفک حادثہ پیش آیا جس میں 14 سالہ لڑکے نے پورا خاندان ہی اجاڑ دیا تھا۔ اس واقعے میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد چل بسے۔ جبکہ رواں برس اسلام آباد ڈی چوک میں غزہ بچاؤ احتجاج میں حصہ لینے والے افراد پر آدھی رات کو ایک تیز رفتار کار چڑھا دی گئی جس سے 2 افراد جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہو گئے۔ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے اس حادثہ کے نقش مٹے نہ تھے کہ ایک اور جان لیوا ٹریفک حادثہ نے لوگوں کی توجہ لے لی۔ کراچی میں 19 اگست کو ایک تیز رفتار گاڑی نے موٹر سائیکل سوار باپ بیٹی کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کے نتیجے میں وہ دونوں موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ 4 افراد شدید زخمی ہوئے۔ یہ گاڑی ملک کے ایک بڑے بزنس گروپ کی امیر خاتون چلا رہی تھی جس نے راستے میں آنے والے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے روند ڈالا۔ جیپ چلانے والی نتاشا نے موٹر سائیکلوں کو ٹکر مارنے کے بعد ایک اورگاڑی کو زوردار ٹکر دے ماری، گاڑی تباہ ہو گئی تاہم معجزانہ طور پر کار میں نوجوان کی جان محفوظ رہی۔
پولیس نے گاڑی چلانے والی خاتون نتاشا کو گرفتار تو کر لیا مگر سلوک ویسا نہ تھا جیسا ایک قاتل کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس معاشرے میں دولت اور اقتدار کا نشہ اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ 21 اگست کو ملزمہ نتاشا کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے اور 23 اگست کو تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم بھی تشکیل دے دی جاتی ہے۔ اب ملزمہ کی میڈیکل رپورٹ میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آئی ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ نشے میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بہت کوشش کی گئی کہ رپورٹ کو عوام کی نظروں سے چھپا لیا جائے۔ آئس نشے کی تصدیق کے بعد منشیات کے استعمال کرنے کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ ان واقعات پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ اس ملک میں امراء کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں بلکہ موت بانٹنے کا لائسنس دیا گیا ہے۔ پاکستان میں جہاں ٹریفک حادثات سالانہ تقریباً 35 ہزار لوگوں کی جان لیتے ہیں وہیں لگ بھگ 50 ہزار سے زائد لوگ زخمی اور معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک میں ٹریفک حادثات میں کمی کے لیے قوانین تو ہیں پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں ٹریفک حادثات کی روک تھام سے متعلق اگرچہ تین قوانین موجود ہے جن میں موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 شامل ہیں تاہم مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ قوانین ہونے کے باوجود مجرموں کو سزا دلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ سڑکیں، انفرا سٹرکچر اور روڈ سیفٹی نہ ہونا بھی حادثات کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اہم شاہرائیں ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور آئے روز لوگ ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 ماہ میں صرف جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں 477 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ان ٹریفک حادثات کی اہم وجہ تیز رفتاری بتائی گئی ہے۔
اعداد و شمار شمار کے مطابق سال 2023 میں صرف کراچی شہر میں ٹریفک حادثات کے 84 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 758 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ملک میں ٹریفک حادثات سے متعلق اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ مگر اس سے بڑی پریشانی کا باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث طاقتور افراد کو سزا دلانے کے بجائے ان کی سہولت کاری کرنا ہے۔ ملزمہ نتاشا کو جیل میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ حادثے کا شکار باپ بیٹی کو جو اشیاء زندگی میں حاصل نہ تھیں، ملزمہ کو جیل میں بیڈ، اے سی، فریج، اوون، گھر کا کھانا، اچار، چاکلیٹس اور وائی فائی جیسی سب سہولیات میسر ہیں۔ ملزمہ آزاد قیدی ہے جو جیل میں جس وقت جہاں جانا چاہیں، ان پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ جیل میں ہر سہولت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ ملزموں کو ایسی سہولیات تو ناروے جیسا ملک بھی نہیں دیتا جیسی سہولیات اسے دی جا رہی ہیں۔ اس طرح کا رویہ معاشرے کی بقا اور سالمیت کیلئے خطرناک ہے۔ ناروے جیسی ویلفیئر سٹیٹ میں جہاں کی جیلیں اور ان جیلوں کے قیام کے پیچھے کارفرما سوچ بہت مختلف ہے۔ وہ جیلیں کم اور بحالی کے مراکز زیادہ ہیں۔ ناروے کی ایک جیل Halden Prison جو سویڈن کے بارڈر کے قریب واقع ہے کو دنیا میں انسانی حقوق کے عین مطابق اور انتہائی پُر آسائش جیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس جیل میں ملزمان کو الگ الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے اور باتھ روم بھی ہر ملزم کا الگ ہوتا ہے۔ جیل سیل میں ٹی وی اور کھڑکی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جم، وڈیو روم، کچن اور دیگر کئی آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود قاتلوں کو ہائی سکیورٹی جیل اور قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ ناروے میں سانحہ 2011 کے 77 افراد کے قاتل اینڈرسن بریوک کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا۔ لیکن پاکستان کی جیل کے حالات غریب اور امیر کے لیے الگ الگ ہیں۔ یہاں مجرموں اور ملزموں کو جرم کی نوعیت کے مطابق نہیں بلکہ دولت اور طاقت کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ جو جتنا طاقتور ہے اسے اس کے مطابق سہولیات بھی ملیں گی اور سزا سے بچانے کے لیے بھی ایک سو ایک جواز پیش کر دئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ یہ امیر طبقہ طاقت کے ذریعے دباؤ ڈال کر مقتول کے ورثاء کو دیت لینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ احساس جرم سے عاری طاقت کے نشے میں دھت یہ طبقہ عدل و انصاف کے نظام کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی‘‘۔
جرم کسی سے بھی سرزد ہو سکتا ہے اور روڈ پر حادثات بھی ہوتے ہیں تاہم مہذب ممالک میں ایسے مواقع پر قانون اپنی پوری طاقت سے بروئے کار آتا ہے۔ وہ کمزور یا طاقتور سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔
اب اسی ملزمہ نتاشا دانش کو ہی دیکھ لیجئے۔ ایسا لگتا ہے جیسے احساس جرم اس کو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ جانی نقصان پر کوئی ملال اور نہ ہی اتنے بڑے جرم پر سزا کا خوف۔ یہ آئس کا نشہ ہے یا دولت کا خمار؟
تبصرے بند ہیں.