یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کسی بھی حکومت نے کبھی بھی تاجروں کے مفاد میں نہ کوئی کام کئے نہ ان کو کبھی اعتماد میں لیا، نہ معاشی پالیسیز بنانے وقت سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو ساتھ لے کر چلے اب انہوں نے تاجر دوست سکیم کا اجرا کرکے ہمارے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق کیا ہے۔ یہ میرے نزدیک ہمارے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ہے۔ ایک طرف حکومت عوام دوست بجٹ کی آڑ میں ٹیکسز کے اوپر ٹیکس لگا کر ہمارے کاروبار بند کروا دیئے اور ایک چھوٹے سے بڑے تاجر تک کو سڑکوں پر لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہم حکومت سے بار بار گزارشات کر چکے ہیں کہ آپ کوئی بھی معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں۔ مگر لگتا ہے کہ حکومت ہمارے معاشی قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ہم پھر آپ سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اتنا مجبور نہ کرو کہ کوئی بڑا قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ ان باتوں کا اظہار یونائیٹڈ گروپ کے روح رواں ثناء اللہ چوہدری نے ’’نئی بات‘‘ کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا۔ ثناء اللہ چوہدری کا تعلق ایک صنعتی گھرانے سے ہے۔ پاکستان میں یونائیٹڈ گروپ آف انڈسٹریز کا بے مثال کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انہوں نے پاکستان میں موٹر پمپ سے کار تک جس کا نام سکوٹی ہے کو متعارف کروا کے بین الاقوامی کار انڈسٹری کی صف میں پاکستان کو لاکھڑا کیا۔ اس کا کریڈٹ بھی چوہدری برادران کو جاتا ہے۔ چوہدری ثناء اللہ اور چوہدری ضیاء اللہ کی شخصیات پاکستان میں ٭٭٭ بین الاقوامی انڈسٹری میں پاکستان کی بڑی شناخت کے ساتھ دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ یونائیٹڈ گروپ آف انڈسٹری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے پاکستان میں جہاں مردو ںکے لیے ایک چھوٹی بائیک سے ایک ہیوی بائیک بنانے کا اعزاز لیا وہاں انہوں نے خواتین کے لیے بھی سوٹی بائیک بنا کر خواتین کی سفری زندگی کو آسان بنا دیا اور پھر پاکستان میں شدید مہنگائی کے دور میں انہوں نے سستی بائیک فروخت کی۔ چوہدری برادران دن رات پاکستان کی معاشی اور صنعتی صورت کو بہتری کی طرف لانے میں دن رات کوشاں ہیں۔
چوہدری ثناء اللہ کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ پاکستان کی معاشی صورتحال پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف کہ حکومت اپنے اسٹیک ہولڈر کو ساتھ لے کر چلے، خاص کر تاجر طبقہ جو اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس کی سنے، اس کو ساتھ لے کر چلے۔ صد افسوس کہ حکومت تاجروں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج ہماری انڈسٹری بندش کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک چھوٹے تاجر سے بڑے تاجر تک کے کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ نہ بجلی، نہ گیس، نہ پانی اوپر سے بھاری بلوں نے جہاں عوام کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں وہاں ہماری انڈسٹری بھی برے حالات کی طرف چلی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں ہم نے یونائیٹڈ گروپ آف انڈسٹری کے چیئرمین ثناء اللہ چوہدری سے ایک تفصیلی ملاقات میں پہلے تو لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ہونے والے انتخابات جس میں وہ پیاف، فاؤنڈر اور ایل بی ایف کی طرف سے کارپٹ کلاس کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں اور تاجر گروپ سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرتے ہوئے تاجر سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ آیئے ذیل کے کالموں میں ان سے کی گئی ملاقات کا احوال پڑھتے چلیں۔
لاہور چیمبر کی ایک صدی کی تاریخ کا یہ دوسرا بڑا انتخاب ہونے جا رہا ہے اور پہلی بار یہ بھی ہوا ہے کہ اس دفعہ چھ بڑے گروپس کے درمیان کانٹے کا جوڑ پڑنے والا ہے، آپ کہاں اس کو دیکھ رہے ہیں؟
لاہور چیمبر کے انتخابات میں ظاہری بات ہے کہ بڑے جوڑ پڑیں گے، بڑا انتخاب، جہاں تاجروں کے جوش کو بڑھا رہا ہے وہاں وہ ایک دوسرے سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں جہاں تک پیاف فاؤنڈر کا تعلق ہے یہ گزشتہ 30سال سے لاہوری تاجر برادری میں بڑا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور انشاء اللہ ہم یہ انتخاب جیت جائیں گے۔ اب ہمارے ساتھ لاہوری تاجر برادری ڈٹ کے کھڑی ہے اور اس کو یقین ہے کہ پیاف فاؤنڈر ایل جی ایف ہی ان کے مسائل کا واحد حل ہے اور یہ تیس ای سی سیٹوں کا الیکشن لاہور کی تاجر برادری کا سب سے بڑا معرکہ ہے۔ پیاف فاؤنڈر اور ایل بی ایف کے اتحاد کے بعد ابUBGکے چیئرمین ایم ایس تنویر نے جس بھرپور تعاون کے ساتھ ہمارے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا ہے اس کی روشنی میں بات کروں تو ہم یہ انتخاب جیت چکے ہیں۔ گویہ دعوؤں کی سیاست نہیں ہے، جیتے گا وہی جو بہترین پرفارمنس دے گا اور ووٹر کو پولنگ سٹیشن تک لائے گا۔ میں یہاں نہ تو دعویٰ کر رہا ہوں نہ کوئی غلط بیانی کروں گا مگر میری رائے ہے کہ اب وہ حالات اور واقعات نہیں رہے کہ آپ اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں یا اپنی مری کے ووٹ ڈلوا لیں۔ اب صاف شفاف انتخاب میں ہم واضح اکثریت لیے میدان میں اتریں گے۔
گروپس بہت ہیں، ووٹ تو تقسیم ہوگا، پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا؟
دیکھیں جب ان حالات میں انتخابات ہوں گے تو پھر ووٹ تو تقسیم ہوگا مگر ہمیں اس تقسیم سے بھی فائدہ ہی ہوگا۔ گروپس اس لیے بڑھے کہ لاہوری تاجر برادری میں بے حد اضافہ ہوا۔ نوجوان تاجر بڑھا۔ آپ کی لاہور چیمبر کی ممبر سازی میں تین ہزار نئے تاجروں کی شمولیت ہوئی اب تقریباً 35ہزار ممبر ہیں۔
کیا گرینڈ الائنسز کی ضرورت ہوگی، تاکہ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ ہوتا؟
نہیں میرے خیال میں اب مزید ضرورت پیش نہیں آئے گی اور لاہور چیمبر کی تاریخ میں اس سے بڑا الائنس جو ہمارا ہے وہ نہیں بنا اور نہ ہی بنے گا۔
یہ انتخاب بھی تو تیس سیٹوں کا ہے؟
یہ درست ہے کہ تیس سیٹوں پر انتخابات ہوں گے یعنی 16ایسوسی ایٹ اور 16کارپٹ سیکٹر کی سیٹوں میں، اس لیے یہ بڑا معرکہ دکھائی دے رہا ہے۔ آج سے تین سال قبل ہر سال انتخابات ہوا کرتے تھے جب اور پھر طارق مصباح صدر لاہور چیمبر تھے تو انہوں نے تمام گروپس کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ بجائے نئے انتخابات کرائے جائیں مشترکہ طور پر صدر لے آئے اور پھر اس صورت میں فاؤنڈر کے کاشف انور کو سامنے لایا گیا لہٰذا اب چونکہ ای سی ممبران کی مدت ختم ہو رہی تھی اب پورا سیٹ اپ براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوگا۔ میرے نزدیک لاہور چیمبر کا یہ انتخاب پاکستان کی انڈسٹری پر بڑے اثرات چھوڑے گا۔
پیاف، فاؤنڈر، ایل جی ایف اتحاد کی کامیابی کو کہاں دیکھ رہے ہیں؟
لاہور چیمبر کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ کامیابی کے زینے طے کئے اور انشاء اللہ 2024-25ء کے انتخابات میں بھی جیت پیاف، فاؤنڈر، ایل جی ایف کی ہی ہوگی۔ تاجر برادری کو پتہ ہے کہ ہم نے ہر سطح پر تاجروں کو یکجا کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
آپ کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ آپ مارکیٹس کا دورے نہیں کرتے۔ انتخابی ماحول بنانے کے لیے دوسرے گروپس آئے روز مارکیٹس کے دورے کر رہے ہیں؟
ایسی بات نہیں، فاؤنڈر تو ہمیشہ تاجر برادری کے ساتھ ہے اور جہاں تک دورے کا تعلق ہے ہم تو دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ایسوسی ایٹ کلاس کے انتخابات میں آپ کو ہماری جیت بڑی واضح نظر آئے گی۔ ہم شور نہیں مچاتے کام کرتے ہیں اور فاؤنڈر کے کام بھی بولتے ہیں۔
میں صرف گزشتہ دو سال کی ٹریڈ سیاست کی بات کروں گا کہ لاہوری تاجر نہ صرف بکھرا، اختلافات کا شکار ہوا بلکہ ووٹ بھی تقسیم ہوا۔ اس کی ہمدردیاں اور معاملات بھی بدلے کیا یہ باتیں آنے والے چیمبر کے انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوں گی؟
آج کے حوالے سے بات کروں تو جوق در جوق لوگ ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ابھی تو ابتدا ہے، آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ آج سب سے بڑی نمائندگی ہماری ہے۔ انشاء اللہ لاہور چیمبر میں پیاف فاؤنڈر کو ایک بڑی کامیابی دلوائے گا۔
تاجر حکومت کے ساتھ سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے وہ جب سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بنے گا تو حکومت تو پھر اس کو اعتماد میں لئے بغیر من مانیاں پالیسیز نافذ کر دیتی ہے کیا یہ باتیں تاجر کے مفاد کے خلاف نہیں جاتیں۔ تاجر کا کام تجارت کرنا ہے نہ کہ سیاست؟
دیکھیں مفاد پرست لیڈروں کی کاروباری عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر تاجروں کو بلیک میل کرتے ہوئے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ منافقین آج سے 14سو سال پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ یہی منافقین تاجروں کے ساتھ غداری کرتے ہوئے نام نہاد گروپ بنا کے سب سے کھیل رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس کے برے اثرات ہم سب پر پڑیں گے۔
اتحادی ٹریڈ سیاست کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
اگر اتحادی سیاست تاجروں کے نظریات کے خلاف جائے گی تو ظاہری بات ہے کہ اس کا نقصان ہوگا مگر میرے نزدیک گرینڈ الائنسز بن جانے سے ایک تو ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائے گا دوسرا الزامات کی سیاست بھی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ میرے خیال میں آج گرینڈ الائنسز کی۔
کس کی جیت دیکھ رہے ہیں؟
انشاء اللہ پیاف فاؤنڈر اتحاد یہ انتخاب جیت کر اپنی جیت کی روایات کو برقرار رکھے گا۔
صدر کون بنے گا؟
ہمارے امیدوار ناصر حمید اگلے صدر ہوں گے اور ہم لاہور چیمبر کی تاریخ بدلیں گے۔ اس کی روایات کو بدلیں گے اور ایک بڑا ادارہ بنائیں گے۔
اندرون تاجر سیاست کے سب گروپ دعوے کر رہے ہیں کہ اکثریت ان کے پاس ہے، آج اصل صورتحال ہے کیا؟
23ستمبر کو سب کے دعوے کھل کر بے نقاب ہو جائیں گے کہ کون کس کے ساتھ اور دعوے کون کر رہا تھا اگر میں ان کے دعوؤں پر جاؤں تو مجھے یہ لگتا ہے کہ اس سے 40ہزار ووٹ بن سکتے ہیں جبکہ ممبران کی تعداد جو اس وقت لاہور چیمبر کی ہے وہ 35ہزار سے زیادہ نہیں اور ایسوسی ایٹ کا ووٹ کتنا ہے۔ یہ سب دعوے کرنے والے بخوبی جانتے ہیں جو اس وقت گروپ سیاست میں ہیں وہ کامیاب ہے اور ووٹ خدمات کا ہے کہ کس نے تاجروں کے ساتھ کام کیا اور ان کو ساتھ لے کر چلے اور اس دفعہ بھی ووٹ ان کو پڑے گا جنہوں نے تاجروں کی خدمت کی ہے۔
آپ کے مخالفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پیاف فاؤنڈر ایسوسی ایٹ میں ناکام ہو گا کہ اس کی تمام طاقت ہمارے پاس ہے؟
مجھے بتائیں آپ ملک افتخار، شیخ آصف، میاں مصباح الرحمان، شہزاد ملک کی خدمات کو کس طرح بھلا سکتے ہیں۔ انہوں نے بھی تو ایسوسی ایٹ کلاس کو عزت اور مقام دلوایا ہے۔ ٹریڈ سیاست میں یہ سب لیڈر آج بھی بڑی محنت اور لگن کے ساتھ ورکنگ کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ذاتی مفادات نہیں اور جن کے ذاتی مفادات ہیں وہ بے نقاب ہو چکے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم انرجی کرائسس سے نکل جائیں گے اور آپ اس بحران کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو روز اوّل ہی سے بڑے بڑے بحرانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو دیکھا اور وہ اقتدار کی جنگ میں وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ اس ملک کے عوام کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ میں صرف بڑے مالیاتی سکینڈل کا ذکر کروں گا۔ آئی پی پیز ایک ایسا سکینڈل ہے جس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی بڑے سکینڈل آئے کیا مگر کسی حکومت نے نوٹس نہیں لئے، کتنے کمیشن بنے، کیا کسی کو سزا ہوئی۔ کیا ان کو منظرعام پر لایا گیا۔ جہاں تک آپ نے کہا کہ ہم نے آج کیوں آواز بلند کی۔ ہم فیڈریشن میں اب آئے ہیں۔ دیکھیں بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے جو کبھی وقت پر نہیں سوچتے ہر کام ’’ایڈہاک‘‘ بنیادوں پر کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے سیاسی مفادات تک محدود ہوتے ہیں۔
تاجر دوست سکیم پر پاکستان کی پوری ٹریڈ باڈی پریشان ہے، آپ اس سکیم کے بارے میں کیا رائے دے سکتے ہیں؟
میرے نزدیک یہ سکیم دوستی کے زمرے میں نہیں آئی گو پاکستان کی معیشت کو مستحکم اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے تاجر دوست سکیم کے نام سے ایک نئی سکیم متعارف شاید ان کا مقصد ملک بھر کے چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہو یا اس کا خیال ہے کہ اس سکیم سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل ہوگا اور معیشت کو مضبوط ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ سکیم کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی اس سکیم کے آتے ہی تاجروں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا۔ تاجروں کے خیال میں اس سکیم میںسب سے بڑا سقم یہ ہے کہ تاجروں کو یہ سکیم بناتے وقت آن بورڈ نہیں لیا گیا۔ جب تاجر اس میں اپنی رائے نہیں دیں گے تو وہ کس طرح اس کو قبول کریں گے۔ اگر میں یہاں ماضی کی مثال دوں تو گزری حکومتوں نے بھی اس شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی، گزشتہ تین ادوار میں بیشمار کوششیں کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ جس کی وجہ یہ ہی تھی انہوں نے کبھی بھی تاجروں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تاجر کیا کسی بھی شعبے میں پالیسیز بناتے وقت سٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کیا گیا اور یہی بڑی وجہ تباہی کی بنی کہ جب تمام فیصلے بیوروکریٹوں نے ہی کرنا ہیں تو پھر وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم پاکستان کو بربادی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.